لڑکی کی پیدائش اور سماجی رویّہ

میں الحمد للہ ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں ۔ میری سسرال میں بھی دین کا خوب چرچا ہے۔ میری پانچ بچیاں ہیں ۔ جب میری پہلی بچی ہوئی تو سسرال میں خوب جشن منایا گیا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں ، دوسری اور تیسری بچی کی ولادت کے موقع پر بھی خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن کم کم، پھر جب چوتھی بچی ہوئی تو سسرال کے لوگوں کا انداز بدلنے لگا۔ کسی نے کھلے الفاظ میں کچھ کہا تو نہیں ، لیکن دبی زبان میں اس خواہش کا اظہار ہونے لگا کہ اب لڑکا چاہیے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر لڑکی دے دی۔ اب میرے ساتھ اس طرح برتاؤ کیا جانے لگا، گویا لڑکیوں کی پیدائش کی میں ہی قصوروار ہوں ۔ اس طرح کے مشورے بھی میرے کانوں میں پڑنے لگے کہ اگر لڑکا چاہیے تو میرے شوہر کو دوسری شادی کرلینی چاہیے۔ اب میں پھر امید سے ہوں ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ اگر پھر لڑکی ہوئی تو سسرال میں میں کہیں کی نہیں رہوں گی۔ کبھی جی میں آتا ہے کہ اسقاط کروالوں ۔ لیکن یہ سوچ کر رک جاتی ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ میں ان دنوں بہت پریشان ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔ میں کیا کروں ؟

کیا تعلیم جاری رکھنے کے مقصد سے اسقاط کروایا جاسکتا ہے؟

ایک خاتون کا تعلیمی سلسلہ جاری تھا کہ اس کا نکاح ہوگیا۔ شوہر سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں ۔ بیوی کی خواہش پر انھوں نے اسے تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ کورس پورا ہونے میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے۔ اس عرصے میں ہر چھ ماہ میں ایک بار امتحان کی غرض سے آنا ہوگا۔ ایک ماہ ہونے کو ہے، بیوی کو معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہے۔ وہ دوران ِ تعلیم حمل و وضع حمل کے بکھیڑوں سے آزاد رہنا چاہتی ہے، اس لیے بچے کی پیدایش اور پرورش کو ڈیڑھ سال کے لیے مؤخر کرنا چاہتی ہے۔ ایسی صورت میں کیا موجودہ حمل کا اسقاط کروایا جاسکتا ہے؟

جنسی خواہش کی تکمیل کا جائز طریقہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ’اسلامی خاندان‘ کے نام سے ایک مجموعۂ مقالات شائع کیا گیا ہے۔ اس کے ص ۵۲ پر یہ حدیث درج ہے:
’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو اچھی لگی۔ آپؐ اسی وقت زوجۂ مطہرہ حضرت سودہؓ کے پاس تشریف لائے۔ وہ اس وقت خوشبو تیار کر رہی تھیں اور ان کے پاس دوسری خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپؐ نے تنہائی حاصل کی اور اپنی ضرورت پوری کی، پھر فرمایا: جو شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو بھلی لگے، اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے، کیوں کہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس ہے۔‘‘
اس حدیث کو پڑھ کر میں سخت پریشانی اور الجھن میں پڑگیا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے غیر محرم عورت پر نگاہ ڈالی اور اتنی دیر تک ڈالی کہ وہ ان کو اچھی لگی۔ کیا واقعی پیغمبر غیر محرم عورت پر نگاہ جماتے تھے؟ کیا واقعی پیغمبر کی شان یہ ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو دیکھے اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی ترغیب دے اور کہے کہ اگر کوئی عورت تم دیکھو اور وہ بھلی لگے تو فوراً اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ اگرکوئی مرد کنوارا یا بغیر بیوی کے (رنڈوا) ہو تو وہ کہاں جائے؟ اس حدیث سے یہ مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے کہ اس وقت عورتیں بے پردہ رہتی تھیں یا ہوسکتا ہے کہ یہ احکامِ پردہ سے پہلے کا واقعہ ہو۔
میری اس الجھن کو رفع فرمائیں ۔ عنایت ہوگی۔

ٹیسٹ ٹیوب تکنیک کے ذریعے استقرار ِحمل

ایک صاحب کی شادی کو تین سال ہوچکے ہیں ، لیکن اب تک وہ بچے سے محروم ہیں ۔ میاں بیوی دونوں نے اپنا ٹیسٹ کروایا ہے، دونوں میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ پھر بھی استقرار ِ حمل نہیں ہوسکا ہے۔ اب کسی نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ وہ بچہ حاصل کرنے کے لیے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تکنیک اختیار کریں ۔ بہ راہ کرم آگاہ فرمائیں ۔ کیا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تکنیک اختیار کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟

اگر شوہر جنسی تعلق پر قادر نہ ہو

ایک لڑکی کی شادی کو دو سال ہوگئے ہیں ۔ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ والدہ زندہ ہیں ۔ اس عرصے میں حمل کے آثار ظاہر نہ ہوئے تو لڑکی کی ماں کے بہ اصرار پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ اس کا شوہر جنسی تعلق پر قادر نہیں ہے۔ اس عرصے میں لڑکے نے کافی علاج کرایا، لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ لڑکی اب بھی شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار ہے، لیکن اس کی ماں خلع کروانا چاہتی ہے۔
اس مسئلے میں بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ اگر کوئی مرد جنسی تعلق کے قابل نہ ہو تو کیا زوجین کے درمیان جدائی کروا دی جائے گی؟ اگر اس صورت میں بھی دونوں میاں بیوی ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو کیا اس کی گنجائش ہے؟ شریعت میں اس مسئلے کے بارے میں کیا احکام ہیں ؟ براہ کرم جواب مرحمت فرمائیں ، تاکہ دونوں خاندانوں میں تنازع نہ ہو اور خیر کا پہلو نکل آئے۔

طلاق واقع ہونے کے لیے عورت کا سننا ضروری نہیں

زوجین میں اختلاف اور تنازع ہونے کے بعد بیوی شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے میکے چلی گئی۔ اس واقعے کو ڈیڑھ سال ہوگئے۔ اس عرصے میں اس نے کوئی ربط و ضبط رکھا نہ شوہر کے گھر آئی۔ کچھ عرصہ پہلے چھے مقامی حضرات نے درمیان میں پڑ کر صلح صفائی کروانی چاہی۔ وہ شوہر کے گھر اکٹھا ہوئے اور وہاں اس کی موجودگی میں موبائل سے اس کی بیوی سے رابطہ کیا گیا، اس کو کافی سمجھایا بجھایا گیا، مگر وہ آنے کے لیے تیار نہ ہوئی اور طلاق کا مطالبہ کرنے لگی۔ بالآخر اسی مجلس میں شوہر نے اس کو طلاق دے دی۔ اس وقت موبائل آن تھا۔ طلاق کے الفاظ سن کر بیوی نے ’بہت اچھا‘ کہا، جسے وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ وہیں طے پایا کہ دوران ِ عدت لڑکی کو ہر ماہ تین ہزار روپے بھیجے جائیں ۔ چنانچہ لڑکی کے کپڑے وغیرہ ایک اٹیچی میں رکھ کر اور عدت کے ایک ماہ کا خرچ تین ہزار روپے بھیج دیے گئے، جسے لڑکی والوں نے قبول کرلیا۔ دوسرے ماہ بھی تین ہزار روپے بھیجے گئے، جو قبول کرلیے گئے۔ اب ڈھائی ماہ بعد لڑکی کہہ رہی ہے کہ اس نے طلاق سنی ہی نہیں ۔
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلع فرمائیں کہ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟

پوجا پاٹ میں استعمال ہونے والی چیزوں کی تجارت

میری ایک دوکان ہے، جس میں اسٹیل، تانبہ اور سلور کے برتن اور گھریلو استعمال کی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں ۔ کیا ہم اس میں وہ چیزیں اور برتن، جو خاص کر ہندوؤں اور مشرکوں کے یہاں پوجا پاٹ میں استعمال ہوتے ہیں ، مثلاً چراغ اور مندروں اور گھروں میں استعمال ہونے والے گھنٹے وغیرہ، انھیں فروخت کرسکتے ہیں ؟

مشترکہ رہائش اور مشترکہ کاروبار کا مسئلہ

ہم چھے بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ تین بھائیوں اور دو بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ تین بھائیوں کی ابھی شادی ہونی باقی ہے۔ ایک بھائی نے شادی کے بعد الگ رہنا شروع کردیا تھا۔ باقی ہم پانچ بھائی (دو شادی شدہ اور تین غیر شادی شدہ) ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ اس پس منظر میں ہمارے سوالات درج ذیل ہیں :
(۱) کیا مشترکہ خاندان کی اسلام میں اجازت ہے؟ اگر ہاں تو گھریلو اخراجات کی تقسیم کس طرح ہو؟ اگر نہیں تو کیا شادی کے بعد فوراً الگ رہنا چاہیے؟ اگر کوئی بھائی گھر سے الگ خانگی طور پر رہتا ہو تو کیا مشترکہ خاندان میں اسے ماہانہ خرچ دینا ہوگا؟
(۲) جو بھائی غیر شادی شدہ یا بے روزگار ہیں ان کا خرچ کس کے ذمے ہیں ؟
(۳) ہمارے دو بھائی سلائی کا کارخانہ چلاتے ہیں ۔ پہلے وہ الگ الگ کام کرتے تھے۔ بعد میں بڑے بھائی کے کہنے پر چھوٹے بھائی نے اپنی مشینیں بڑے بھائی کے کارخانے میں منتقل کردیں اور دونوں ساتھ میں کام کرنے لگے۔ کسی نے بھی اپنی حیثیت متعین نہیں کی، نہ کام کی تفصیل سمجھی۔ جس طرح مشترک رہتے تھے، اسی طرح مشترک کارخانہ چلنے لگا۔ لیکن اب چھوٹا بھائی خود کو کارخانے میں پارٹنر سمجھتا ہے اور بڑے بھائی اس کے ساتھ کاریگر جیسا معاملہ کرتے ہیں ۔ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟

زکوٰۃ کے چند مسائل

میں ایک فیکٹری کا مالک ہوں ۔ اس میں بہت سے ملازمین کام کرتے ہیں ۔ میں ہر سال رمضان میں اپنی پورے سال کی آمدنی کا حساب کرکے زکوٰۃ نکالتا ہوں ۔ زکوٰۃ کی ادائی کے بارے میں میری چند الجھنیں ہیں ۔ بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں انھیں دور فرمائیں :
(۱) فیکٹری میں کام کرنے والے ملازمین کے بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، شادی اور دیگر مواقع پر میں ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ ان کی کچھ مالی مدد کی جائے۔ کیا انھیں زکوٰۃ کی مد سے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ بعض ملازمین ایسے بھی ہیں کہ اگر انھیں رقم دیتے وقت بتا دیا جائے کہ یہ زکوٰۃ کا مال ہے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ کیا انھیں بغیر اس کی صراحت کے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ کیا زکوٰۃ کی ادائی درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جسے دی جائے اسے صاف لفظوں میں یہ بھی بتایا جائے کہ یہ زکوٰۃ ہے؟
(۲) کیا جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اسے فوراً یک مشت ادا کردینا ضروری ہے؟ یا اسے الگ رکھ کر اس میں سے تھوڑا تھوڑا بہ وقت ِ ضرورت خرچ کیا جاسکتا ہے؟ میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ زکوٰۃ کی رقم الگ کرکے رکھ لوں اور پورے سال اس میں سے تھوڑی تھوڑی رقم ضرورت مندوں کو دیتا رہوں ۔ لیکن مجھے شبہ ہے کہ جب تک زکوٰۃ کی رقم میری تحویل میں رہے گی میں اس کی عدم ادائی کا گناہ گار ہوں گا۔
(۳) بعض ملازمین قرض مانگتے ہیں ، مگر پھر اسے ادا نہیں کرتے۔ بارہا تقاضوں کے باوجود ان سے قرض کی رقم واپس نہیں مل پاتی۔ کیا رقم زکوٰۃ کو اس میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے، کہ میں ان ملازمین سے قرض مانگنا چھوڑدوں اور اس کے بہ قدر رقم واجب الادا زکوٰۃ میں سے روک لوں ؟