چچی سے نکاح
کیا چچی سے نکاح ہوسکتا ہے ؟ بہ راہ کرم یہ بھی بتائیں کہ کیا بیوہ اور مطلقہ کے حکم میں کچھ فرق ہے ؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (ولادت 1964ء) نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عا لمیت و فضیلت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ 1994ء سے 2011ء تک ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رکن رہے ہیں۔ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔ اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ان کی تین درجن سے زائد تصانیف ہیں۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں۔
کیا چچی سے نکاح ہوسکتا ہے ؟ بہ راہ کرم یہ بھی بتائیں کہ کیا بیوہ اور مطلقہ کے حکم میں کچھ فرق ہے ؟
میرا ایک لڑکا اورایک لڑکی ہے۔ میں نے لڑکی کا نکاح اپنے ایک دوست کے لڑکے سے کرنے کا ارادہ کیا ۔ پہلے تو انہوں نے آمادگی ظاہر نہیں کی، لیکن پھر اس شرط پرتیار ہوگئے کہ ان کی لڑکی کا نکاح میں اپنے لڑکے سے کردوں ۔ اس سلسلے میں میں نے اپنے بعضـ دوستوں سےمشورہ کیا توایک صاحب نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی شادیوں سے منع فرمایا ہے ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا ایسی شادی اسلامی شریعت کی رو ٗ سے جائز نہیں ہے؟
میرے لڑکے کی عمرپچیس سال ہے۔ میں اب اس کا نکاح کردینا چاہتا ہوں ، لیکن اس کا اصرار ہے کہ میں اپنی تعلیم مکمل ہوجانے اورکہیں ملازمت حاصل کرلینے کے بعد ہی نکاح کروں گا۔ میرا اندازہ ہے کہ ابھی اس کے برسرِ روزگارہونے میں کم ازکم چارپانچ سال اور لگ جائیں گے۔اس بنا پر میں الجھن کا شکار ہوں ۔ براہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔ میری سوچ درست ہے یا میرے لڑکے کی بات میں وزن ہے؟
دو خاندان کے بالغ لڑکے اورلڑکی اگر آپس میں رشتہ کرنا چاہیں ، لیکن لڑکے کے والدین اپنے بیٹے کی پسند سے اتفاق نہ رکھتے ہوں توایسی صورت میں کیا لڑکا اپنے والدین کی ناراضی اورعدم موافقت کے باوجود یہ رشتہ کرسکتا ہے ؟ شریعت میں والدین کی رضا مندی کا کہاں تک اعتبار کیا گیا ہے ؟ براہ کرم قرآن وحدیث کے حوالے سے رہ نمائی فرمادیں ۔
شوہر کی اطاعت کہاں تک ضروری ہے؟ پردہ کرنے سے اگر شوہر منع کرے تو کیا اس کی اطاعت ضروری ہوگی؟
میرا ایک بیٹااور دوبیٹیاں ہیں ۔سب کی شادی ہوگئی ہے ۔ میں ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتا ہوں ۔ گھر میں میری اہلیہ بیٹے اوربہو کے ساتھ رہتی ہیں ۔ میر ا گھر الحمدللہ کافی کشادہ ہے ۔ نیچے پانچ کمرے ، برآمدہ ، کچن ، باتھ روم وغیرہ ہیں اور یہی سہولیات پہلی منزل پر بھی ہیں ۔ بس گھر میں داخل ہونے کا مرکزی دروازہ ایک ہی ہے ۔ مزاجی اختلافات کی وجہ سے میری اہلیہ اوربہو میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔ اس بنا پر بہو اوراس کے میکے والوں کا پُر اصرار مطالبہ ہے کہ اسے سسرالی گھر سے دور الگ سے رہائش فراہم کی جائے ۔ وہ ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ الگ سکونت کا مطالبہ لڑکی کا شرعی حق ہے۔
براہِ کرم وـضاحت فرمائیں کہ کیا ایسا گھر،جو والدین اوربیٹے بہوپرمشتمل ہو، غیراسلامی مشترکہ خاندان کی تعریف میں آتا ہے ؟ اگر ساس یقین دہانی کرارہی ہوکہ گھر کی بالائی منزل پر بیٹے بہو کی علیٰحدہ سکونت پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے اوروہ آئندہ ان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گی ، پھر بھی بہو کی جانب سے گھر سے علٰیحدہ سکونت کا مطالبہ کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے ؟
میں جوائنٹ فیملی میں رہتا ہوں ۔میری شادی کو دوسال ہوچکے ہیں ۔ میری بیوی اورگھر کی دیگر خواتین کے درمیان کسی نہ کسی بات کو لے کر ان بن ہوتی رہتی ہے، جس سے میری بیوی پریشان رہتی ہے اورمجھ سے الگ رہائش کے لیے کہتی ہے۔ معاشی حالات ٹھیک نہ ہونے کے سبب میں اس کی یہ خواہش پوری نہیں کرپارہا ہوں ۔ہاں ، میں کرایے کے مکان میں رہ سکتا ہوں ، مگر میری امی اس کے لیے راضی نہیں ہیں ۔ میری رہ نمائی فرمائیں ، میں کیاکروں ؟
’مشترکہ خاندان میں رہائش ‘ کے عنوان کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ مسئلے کے تمام پہلؤوں کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ آغاز ہی میں کہا گیا ہے کہ ’’مشترکہ خاندان میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں ‘‘ جب کہ مفاسد اور خوبیاں تو مشترکہ اور علیٰحدہ دونوں طرح کے خاندانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں ۔اصل سوال یہ ہے کہ بیوی اور شوہر، ساس اور بہو، بھابھی اور نند مشترکہ خاندان میں پیش آنے والے مسائل سے کیسے نپٹیں ؟یا ان کو کیسے سلجھائیں ؟ ان افراد کا رویہ ہی دراصل خاندانی نظام کو خوش گوار بنانے میں مدد دیتا ہے، یا بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ اصل مسئلہ مشترکہ یا علیٰحدہ نظام کا نہیں ، بلکہ اس سے جڑے افراد کے رویوں کا ہے۔
اس سلسلے میں اگر ذیل کی باتوں پر روشنی ڈالی جائے تو آج کی ایک اہم ضرورت پوری ہوگی:
(۱) کیا علیٰحدہ نظامِ خاندان شرعی حیثیت سے لازمی ہے؟ اگر اسلام دونوں (یعنی مشترکہ اور علیٰحدہ) نظاموں کی اجازت دیتا ہے تو اس کی وضاحت قرآن اور حدیث کی روشنی میں کیجیے۔
(۲) کیا نکاح سے پہلے لڑکا یا لڑکی کی طرف سے یہ شرط یا معاہدہ طے ہونا چاہیے کہ وہ نکاح کے بعد کیسے رہنا پسند کرے گایا کرے گی؟
(۳) اگرمشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کی بات طے ہوجاتی ہے تو اس کے شرعی حدود متعین ہونے چاہئیں ۔ اس خاندان کا مالک یا مالکہ یا ناظمہ کون ہوں گے؟ اور ان کی اطاعت اسلامی حدود کے اندر کیسے کی جانی چاہئے؟بہ حیثیت ناظمہ یا امیر ساس یا خسر کے اختیارات اور حدود کیا ہوں گے؟ اور بہ حیثیت ماتحت یا مامور بہو کے کیا اختیارات اور ذمے داریاں ہوں گی؟ جب تک ساس یا خسر معصیت یا ظلم کا حکم نہ دیں ، پسند اور ناپسند سے پرے اطاعت کا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ تو قانونی باتیں ہیں ، اخلاقی اور صلح کل کا رویہ اور اس کے تقاضے دوسرے ہیں ۔ لیکن یہ بات قانونی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے واضح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ شرعی مسئلہ تو یہی ہے کہ بیوی کی ذمے داری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے، جیسا کہ آپ نے بتایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بیوی شوہر کے ماں باپ کی خدمت یا مشترکہ خاندان کے دوسرے کاموں میں حصہ لے گی تو یہ اس کی شرعی ذمے داری سے زائد ہوگا اور یہ ایک طرح کا احسان ہوگا جو وہ اپنے شوہر کی خاطر کرے گی۔ احسان کرنے کا احساس لازماً بیوی کے اندر احساسِ برتری پیدا کردیتا ہے، جو گھر کے ماحول اور ازدواجی زندگی کو بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے۔ بالخصوص تحریک اسلامی سے وابستہ خواتین اور لڑکیوں کے اندر اس حق (یعنی ان پر صرف شوہر کی اطاعت یا خدمت کی ذمے داری ہے) کا شعور بلاوجہ احساسِ برتری پیدا کر رہا ہے، جس کی بنا پر خاندانی نظام اورازدواجی زندگی میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔
اس صورت حال میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
میراخاندان تحریکی ہے،میرے خسر محترم جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے ، میرے شوہر محترم بھی جماعت کے کارکن ہیں ، میں بھی حتیٰ المقدور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہتی ہوں ۔ ابھی حال میں میری رکنیت کی درخواست منظور ہوئی ہے۔ اس پر میرے شوہر نے ناراضی کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت کے ذمہ دار کو رکنیت کی سفارش کرنے سے قبل ان سے ملاقات کرنی چاہئے تھی اوران سے اجازت حاصل کرنی ضروری تھی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کا ’قوام ‘ بنایا ہے :اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاءِ ۔ شوہر کی مرضی کے بغیر عورت کو گھر سے باہر جانے اورتحریکی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جماعت کے ذمہ دار کا رویہ عورت کو بے جا آزادی دینے کا ہے ۔ اس سے ازدواجی تعلقات پر اثر پڑے گا اورگھر کے ماحول میں خواہ مخواہ ٹینشن پیداہوگا۔ ان باتوں سے میں ذہنی طورپر پریشان ہوگئی ہوں ۔ بہ راہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔ میں کیا کروں ؟
میں دینی مزاج رکھتی ہوں ، لیکن میری سسرال والے بالکل دین پسند نہیں ہیں ۔ انہیں نماز روزے سےکوئی مطلب ہے نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ برا مانتے ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیسے ان کی اصلاح کروں ؟ میں بہت پریشان ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔