نو مولود کے کان میں اذان دینا
ہمارے یہاں بعض علماء کہتے ہیں کہ بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلے اس کے کان میں اذان دینی چاہیے۔ یہ حضرات اسے سنت بتاتے ہیں ۔ بہ راہ کرم اس کی مشروعیت کے بارے میں بتایے۔ کیا اس سلسلے میں کوئی حدیث مروی ہے؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (ولادت 1964ء) نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عا لمیت و فضیلت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ 1994ء سے 2011ء تک ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رکن رہے ہیں۔ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔ اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ان کی تین درجن سے زائد تصانیف ہیں۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں۔
ہمارے یہاں بعض علماء کہتے ہیں کہ بچے کی ولادت کے بعد سب سے پہلے اس کے کان میں اذان دینی چاہیے۔ یہ حضرات اسے سنت بتاتے ہیں ۔ بہ راہ کرم اس کی مشروعیت کے بارے میں بتایے۔ کیا اس سلسلے میں کوئی حدیث مروی ہے؟
میں نے اپنے پوتے کے عقیقے کی تاریخ طے کردی اور رشتہ داروں کو اس کی اطلاع دے دی۔ تاریخ ِ عقیقہ سے کچھ دنوں قبل بچے کے سر میں دانے نکل آئے۔ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے سر کے بال منڈوانے سے منع کیا۔ کیا سر کے بال منڈوائے بغیر بچے کا عقیقہ ہوجائے گا؟ کیا میرے لیے کفایت کرے گا کہ میں اس کے بالوں کا اندازہ کرکے اس کے ہم وزن چاندی کی مالیت کی رقم خیرات کردوں ؟
ایک حدیث نظر سے گزری ہے جس کا مضمون کچھ یوں ہے: ’’ایک عورت اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے۔ میں نے حمل اور وضع حمل کی تکلیفیں برداشت کی ہیں ، ابھی یہ میرا دودھ پیتا ہے اور میری آغوش تربیت کا محتاج ہے، لیکن اس کا باپ، جس نے مجھے طلاق دے دی ہے، چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تم اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک تمھارا کہیں اور نکاح نہ ہوجاے۔‘‘
اس حدیث کے ضمن میں درج ذیل سوالات ابھرتے ہیں :
۱- اگر ماں کسی اور سے نکاح کرلے تو ایسی صورت میں کیا ماں کا حق حضانت پوری طرح ساقط ہوجاتا ہے اور بچے کو مطلقہ سے لے لینے کا باپ پوری طرح حق دار ہوگا؟ حدیث کے الفاظ سے تو یہی بات مترشح ہوتی ہے۔
۲- بچہ ماں کے پاس ہو یا ماں جس کے پاس بھی اسے پرورش کے لیے رکھے، وہ مقام کہیں اور ہو اور بچے کا باپ جہاں اپنے اہل خاندان مثلاً بچے کی دادی، دادا، پھوپھی اور چچا وغیرہ کے ساتھ مقیم ہو اور وہیں اس کا پھیلا ہوا کاروبار بھی ہو وہ مقام بچے کی جاے قیام سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر ہو، تب بھی بچے کی ماں اگر فقہ کے اس مسئلے کا حوالہ دے کہ ماں کے بعد بچے کی پرورش کا حق نانی کو منتقل ہوجاتا ہے اور بچے کو اپنی ماں کے پاس رکھنے پر مصر ہو تو یہ کہاں تک صحیح اور درست ہوگا؟ جب کہ بچے کی پرورش اس کی صحت اور تعلیم و تربیت پر نگاہ رکھنا اور وقتاً فوقتاً بچے سے ملنا اور ملتے رہنا اور بچے کو اپنے سے مانوس رکھنا، طویل فاصلے کی بنا پر باپ کے لیے ممکنات میں سے نہ ہو۔ ایسی صورت میں ماں کا یہ طرز عمل اور اس پر اصرار کیا شرعاً صحیح اور درست ہوگا؟
۳- پھر یہ کہ طلاق کے بعد بچے کی ماں کے گھر والوں یعنی نانا، نانی وغیرہ سے اس کے باپ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہوں اور وہ ان کے گھر میں قدم رکھنا بھی پسند نہ کرتا ہو تو ایسی صورت میں بچے کو نانی کے پاس رکھنا بچے سے باپ کے تعلق کو کیا عملاً ختم کردینے کے مترادف نہیں ہوگا۔ شرعاً یہ کہاں تک درست ہے؟
۴- پھر ایک بات اور یہ کہ اگر نانی اپنے گھر کی اکیلی خاتون ہوں ، لڑکیوں کی شادی ہوچکی ہو، بڑے لڑکے شادیوں کے بعد ماں باپ سے علیٰحدہ رہتے ہوں ، ایسی صورت میں نانی پر بچے کی پرورش کی ذمہ داری ڈالنا کہاں تک صحیح اور درست ہوگا، جب کہ بچے کا باپ اس کے لیے بالکل تیار نہ ہو اور اس کو وہ اپنی اور اپنے بچے کی بہت بڑی حق تلفی قرار دیتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت اس طرح کے جبر کی اجازت دے گی؟
۵- دوسری طرف بچے کے باپ کے گھر والے مثلاً بچہ کی دادی، دادا، پھوپھی، چچا وغیرہ بچے کو اپنانے اور دل و جان سے اس کی پرورش اور نگہداشت کرنے کے لیے تیار ہوں تو شرعاً ترجیح کس کو دی جائے گی؟ جب کہ بچے کا باپ بھی اپنے والدین ہی کے ساتھ رہتا ہو اور کاروبار بھی مشترک ہو اور بچے کا باپ بھی دل و جان سے یہی چاہتا ہو کہ اس کا لخت جگر ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رہے اور پیار و محبت کے ماحول میں اس کی راست نگرانی میں بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت اور تعمیر اخلاق کا نظم ہو اور عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ سہولتیں اور آسائشیں بھی بچے کو ملیں ۔
بہ راہ کرم حدیث بالا کے ضمن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں ۔
’بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا حق‘ کے زیر عنوان بعض سوالات کے جو جوابات دیے گئے ہیں ، ان کی ایک شق سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔
لکھا گیا ہے کہ ’’عام حالات میں بچے کو وہیں رکھنا ضروری ہے، جہاں اس کے باپ کا قیام ہو، اس لیے ماں باپ میں سے کوئی بھی اگر دوسری جگہ منتقل ہو رہا ہو تو ماں کا حق ِ حضانت ساقط ہوجائے گا۔‘‘ آگے اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’بچے کا حقیقی ولی باپ ہے، اگرچہ ماں یا اس سلسلے کی کوئی دوسری عورت بچے کا حق حضانت رکھتی ہو، لیکن بچے کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا حق باپ کا ہے۔ اگر وہ بچے کو کسی ایسی جگہ (لے جانا چاہے) جہاں باپ اس کی نگرانی اور نگہ داشت نہیں کرسکتا تو وہ حق حضانت کھو دیتی ہے۔‘‘
موجودہ دور میں حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بدل گئے ہیں ۔ شادیاں دور دراز کے علاقوں سے ہونے لگی ہیں ، پھر لڑکے کی ملازمت یا کاروبار اپنے وطن سے دور کسی جگہ ہو تو شادی شدہ جوڑا وہاں رہنے لگتا ہے۔ اب اگر نا اتفاقی کی بنا پر زوجین کے درمیان علیٰحدگی ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی بچہ ہو تو ظاہر ہے کہ علاحدگی کے بعد محض بچے کی پرورش کے لیے اس کی ماں اس شہر میں نہیں رکے گی، جہاں بچے کا باپ رہتا ہے۔ بل کہ اس شہر میں آجائے گی جہاں اس کے ماں باپ یا کوئی قریبی عزیز رہتا ہے اور اگر اس کا دوسرا نکاح ہوجائے تو وہ اپنے شوہر کے شہر میں منتقل ہوجائے گی۔ کیا اس نقل ِ مکانی کی بنا پر عورت اپنے حق حضانت سے محروم ہوجائے گی؟
اگر والدین (ماں باپ) اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو کوئی حکم دیں اور اس حکم میں دونوں (ماں باپ) کے درمیان اختلاف ہوجائے اور ان میں سے کوئی حکم معصیت پر مبنی بھی نہ ہو تو اولاد پر کس کے حکم کی تعمیل لازم ہے؟ بہ طور ِ مثال میری والدہ مجھ سے کہیں کہ تم دہلی سے علی گڑھ جاؤ اور والد صاحب وہاں جانے سے منع کریں تو مجھ پر کیا لازم ہے؟ مجھے کس کا حکم ماننا چاہیے؟
میں نے جمعہ کے ایک خطبے میں سنا ہے کہ خدمت ماں کی باپ پر مقدم ہے، مگر حکم باپ کا ماں کے حکم پر فوقیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ باپ گھر کا ذمہ دار اور نگراں ہوتا ہے، اس لیے اس کے حکم کی تعمیل لازم ہے۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ ماں کا درجہ باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے نہ حدیث میں ۔
آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کے حوالے سے تحریر فرمائیں کہ یہ دونوں باتیں کہاں تک صحیح ہیں ؟
ایک صاحب کا نکاح ہوا۔ انھوں نے بیوی کو مہر کے علاوہ ایک مکان بھی بہ طور تحفہ دیا اور اس کی گفٹ رجسٹری اس کے نام کروادی۔ مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب اس بیوی سے ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو ان کا دل پھر گیا۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، بل کہ اسے اطلاع دیے بغیر تحفے میں دیے گئے مکان کی رجسٹری بھی منسوخ کروا دی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو دیا گیا تحفہ واپس لیا جاسکتا ہے، شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا ان صاحب کی بات صحیح ہے؟
آج کل بوڑھوں کے لیے ’اولڈ ایج ہومس‘ کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ تقریباً تمام بڑے شہروں میں یہ ادارے قائم ہیں ۔ عموماً انھیں چلانے والے غیر مسلم ہیں ۔ کیا شرعی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے ایسے ہومس قائم کرناجائز ہے؟
بہ راہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل اظہار ِ خیال فرمائیں ۔
میں ایک سلاٹر ہاؤس میں کام کرتا ہوں ۔ یہاں بڑے پیمانے پر جانوروں کا ذبیحہ ہوتا ہے۔ ذبح کا عمل صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائے اس کی نگرانی کے لیے دو مستند علماء مامور ہیں ۔ ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ٹرک سے جانوروں کو اتارتے وقت محسوس ہوا کہ ایک جانور بے دم ہو رہا ہے۔جھٹ سے ایک مزدور نے اس کی گردن پر چھری پھیر دی۔ البتہ چھری چلاتے وقت اس نے بسم اللہ، اللہ اکبر کہنے کی بہ جائے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا۔ خیال رہے کہ مزدور مسلمان تھا، لیکن ان پڑھ تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوا کہ یہ ذبیحہ جائز ہوا یا نہیں ؟ سلاٹر ہاؤس کے عالم صاحب سے رجوع کیا گیا تو انھوں نے اسے ناجائز قرار دیا اور وجہ یہ بتائی کہ جانور ذبح کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا چاہیے۔ غیر اللہ کا نام لینے سے ذبیحہ حرام ہوجاتا ہے۔ اس فتویٰ کے صحیح ہونے پر مجھے کچھ شبہ ہے۔ کیا کلمۂ طیبہ پڑھ کر ذبح کرنے سے جانور حرام ہوجائے گا؟ مزدور نے اسے اللہ کے رسول ﷺ کے نام سے تو نہیں ذبح کیا ہے؟
بہ راہِ کرم اس مسئلے پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں ۔
یہاں کی ایک دینی تنظیم کا، ایک جگہ معمولی تعمیر شدہ دفتر تھا۔ دینی ذہن رکھنے والے ایک بلڈر نے پیش کش کی کہ وہ اپنے والد محترم کے ایصال ِ ثواب کے لیے اپنے خرچ سے تنظیم کی عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے ان کی یہ پیش کش قبول کرلی اور اعتماد کی فضا میں اپنی زمین اور تعمیر شدہ معمولی عمارت ان کے حوالے کردی، جسے توڑ کر اس زمین پر از سرِنو بلڈنگ کی تعمیر کا کام ہونے لگا۔ ساری باتیں زبانی ہوئیں ، کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا گیا۔ تعمیر کے دوران ہی بلڈرنے بعض سیاسی و معاشی مصلحتوں کا حوالہ دے کر تنظیم کے ذمے دار سے ایک مشترکہ ایگریمنٹ پر دستخط کروا لیے، جس کی رو سے نئی تعمیر شدہ عمارت کی دو منزلیں تنظیم کی اور دو منزلیں بلڈر کی قرار پائیں ۔ بلڈر نے اس موقع پر تنظیم کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے صراحت سے کہا کہ یہ محض بعض قانونی ضوابط کی خانہ پری ہے، ورنہ پوری عمارت اصلاً تنظیم کی ملکیت ہوگی۔ لیکن عمارت کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے انھوں نے تنظیم کے حوالے نہیں کیا، بل کہ اس کی اوپری دو منزلیں اپنے قبضے میں رکھتے ہوئے اس میں اپنا ذاتی دفتر قائم کرلیا، نیز اس میں ایک دینی پروجیکٹ شروع کردیا۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ پوری عمارت کی ملکیت تنظیم کی تسلیم کرتے ہوئے اسے تنظیم کے حوالے کردیں ، مگر انھوں نے انکار کردیا۔ مجبوراً تنظیم کے ذمہ داروں نے ان کے سامنے چار تجاویز رکھی ہیں : (۱) وہ غیر مشروط طور پر نئی تعمیر شدہ عمارت کو تنظیم کے حوالے کردیں ۔ (۲) اگر وہ اس کا کچھ حصہ کسی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو تنظیم کے ذمہ داروں سے اس کی باضابطہ اجازت لے لیں ۔ (۳) وہ بلڈنگ پر صرف شدہ رقم تنظیم سے لے کر پوری عمارت تنظیم کے حوالے کردیں ۔ (۴) یا آخری چارۂ کار کے طور پر زمین کی رقم تنظیم کو لوٹا دیں ۔
اس پس منظر میں آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل امور پر فتویٰ دے کر ہماری رہ نمائی فرمائیں :
(۱) تنظیم کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لے کر اور اس کا غلط فائدہ اٹھا کر نئی تعمیر شدہ عمارت کی دو منزلیں اپنے نام سے رجسٹرڈ کروالینا اور اس پر اپنا دعویٰ کرنا کیا دھوکا نہیں ہے؟ شریعت میں دھوکا دینے والے کے لیے کیا وعید آئی ہے؟
(۲) بلڈر کبھی عمارت کے نصف حصے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں اور کبھی پوری عمارت پر تنظیم کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں ، لیکن اس کی حوالگی کے لیے مختلف شرائط عائد کرتے ہیں ۔ حوالگی کے لیے شرائط کی فہرست دینا شریعت کی رو ٗ سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟
(۳) کسی کی عمارت پر بہ زور و جبر قبضہ جمائے رکھنا کیا شریعت کی رو ٗ سے صحیح ہے؟
(۴) بلڈر قانونی پیپرس کا حوالے دے کر عمارت کی دو منزلوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ غاصب اور ظالم نہیں ہیں ؟ کیا غاصب و ظالم کے دباؤ میں آکر اس کی کوئی تجویز قبول کرلینا صحیح ہے؟ کیا یہ ظلم کا ساتھ دینا نہیں ہوا؟
(۵) تنظیم کے ذمہ داروں کے لیے کیا رویہ صحیح ہے؟ وہ حکمت کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کریں یا مذکورہ بلڈر سے رقم لے کر معاملہ رفع دفع کرلیں ؟
میرے والد کا عرصہ قبل انتقال ہوگیا ہے۔ بڑے بھائیوں نے صریح ناانصافی کرتے ہوئے تجارت میں سے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کو محروم کردیا ہے۔ وہ موروثہ جائیداد کو تقسیم کرنا نہیں چاہتے۔ کسی کی ثالثی بھی انھیں منظور نہیں ۔ عدالتوں میں کارروائی کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے خاصے مصارف کی ضرورت ہوتی ہے اور دیگر مسائل بھی ہوتے ہیں ۔ پھر عدالت ہر بات کا ثبوت چاہتی ہے۔ یہ سوچ کر ہم نے اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا تھا اور علیٰحدہ زندگی گزارنی شروع کردی تھی۔ مگر حال میں ایک صاحب نے کہا کہ اپنا حق لڑ کر لینے کا حکم ہے، ورنہ آپ گنہ گار ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے اور ہوا بھی یہی ہے کہ جب جب ہم نے حق مانگا ہے، بات لڑائی جھگڑے اور خون خرابے تک پہنچ گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے۔ برائے مہربانی شرعی طریقہ بتائیں ۔ کیا خون خرابہ کرکے حق حاصل کرنا صحیح ہوگا؟