بعض اہل مکہ کی باہم رشتہ داریاں

ترجمان القرآن جولائی۱۹۷۶ء کے صفحہ۱۲ (مہاجرین حبشہ کی فہرست کے نمبر۴۷) پر عیاشؓ بن ربیعہ کے نام کے بعد قوسین میں انھیں ابوجہل کا بھائی ظاہر کیا گیا ہے۔ صفحہ ۱۵ پر بغلی عنوان ’’مکہ میں اس ہجرت کا رد عمل‘‘ کے تحت حضرت عیاشؓ کو ابوجہل کا چچازاد بھائی تحریر کیا گیا ہے اور صفحہ ۱۷ پر حضرت عباسؓ کے سگے بھائی عبداللّٰہ بن ابی ربیعہ اور صفحہ۲۲ پر حضرت عیاشؓ کو ابوجہل کے ماں جائے بھائی لکھا گیا ہے۔ کیا یہ درست ہے کہ حضرت عیاشؓ ابوجہل کے چچا زاد اور ماں شریک بھائی تھے۔

حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے وقت مسلمانوں کی تعداد

ترجمان القرآن اگست ۱۹۷۶ء کے صفحہ۱۹ پر حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺکے ساتھ ۳۹آدمی تھے اور میں نے شامل ہوکر ان کو۴۰کر دیا۔ آپ نے اس قول کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ ممکن ہے اس وقت حضرت عمرؓ کو اتنے ہی آدمیوں کا علم ہو کیونکہ بہت سے مسلمان اپنا ایمان چھپاے ہوئے بھی تھے۔ اس ضمن میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ ابتدائی سہ سال خفیہ تحریک کے دوران میں ۳۳آدمی مسلمان ہوئے۔ بعدازاں علی الاعلان تبلیغ اسلام شروع ہوئی اور اِکا دُکا لوگ مسلمان ہوتے گئے تا آنکہ کفار کی مخالفت شدت اختیار کرگئی اور۵،۶ بعد بعثت میں ۱۰۳ صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف دو مرحلوں میں ہجرت کرنا پڑی جن میں سے چند ایک بعد ازاں تشریف لے آئے۔ اس ہجرت سے مکہ مکرمہ میں کہرام مچ گیا۔ مہاجرین میں حضرت عمرؓ کے قبیلہ بنی عدی کے افراد بھی شامل تھے اور اس ہجرت سے حضرت عمرؓ متاثر بھی ہوئے۔ چنانچہ یہ تو ممکن ہے کہ جن لوگوں نے قبول اسلام کا اعلان نہ کیا ہو ان کے بارے میں حضرت عمرؓ کو معلومات نہ ہوں ۔ لیکن یہ کیوں کر ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ جیسے باخبر آدمی کو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کا علم نہ ہو جو ہجرت کرکے حبشہ میں مقیم تھے؟ کیا حضرت عمرؓ کے قول کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا کہ جب وہ قبول اسلام کے لیے دارارقم تشریف لے گئے تو اس وقت وہاں صرف۳۹ آدمی تھے اور حضرت عمرؓ کے آنے سے۴۰ ہوگئے اور یہی حضرات دو صفوں میں مسجد حرام کی طرف نکلے۔ ایک صف میں حضرت حمزہؓ تھے اور دوسری میں حضرت عمرؓ۔ مزیدبرآں اس وقت مکہ مکرمہ میں دس مسلمان عورتیں بھی تھیں اور دیگر صحابہ و صحابیاتؓ اس وقت حبشہ میں بطورِ مہاجرین مقیم تھے۔

ازواجِ مطہراتؓ کا پلٹ کر جواب دینا

آپ نے سورۂ التحریم کی آیت إِنْ تَتُوْبَآ إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاہَرَا عَلَیْہِ… ({ FR 1661 }) (التحریم:۴) کی تشریح کرتے ہوئے تفہیم القرآن میں حضرت عمر ؓ کی جو روایت بخاری اور مُسند احمد سے نقل کی ہے، اس میں حضرت عمرؓ کے الفاظ لا تُرَاجِعیِ({ FR 1604 }) کا مفہوم ’’رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر‘‘ (ترجمان القرآن، جلد ۷۲ عدد۴ صفحہ۲۲۳، آخری سطر) اگرچہ صحیح ہے، لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان الفاظ کو بدلنے پر غور فرمائیں کیونکہ اہلِ زَیغ نے آپ پر من جملہ بہت سے الزامات کے ایک یہ الزام بھی بڑے زور شور سے پھیلا رکھا ہے کہ مولانا مودودی نے ازواجِ مطہرات کو ’’زبان دراز‘‘ کہہ کر ان کی گستاخی اور بے ادبی کی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ تفہیم القرآن میں ’’زبان درازی نہ کر‘‘ کے الفاظ کی جگہ ’’پلٹ کر جواب نہ دے‘‘ یا ’’دُو بدُو جواب نہ دے‘‘ کے الفاظ رکھ دیں تو مفہوم کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا اور اہل زیغ کے ہاتھ میں بھی پروپیگنڈے کے لیے شوشہ نہیں آئے گا۔‘‘

اختلافی مسائل پر اُمت سازی کا فتنہ

مجھے مذہبی تنازع اور تفرقے سے فطری بُعد ہے اور وہ تمام جزوی مسائل جن میں اختلاف کی گنجائش خود شریعت میں موجود ہے، ان میں اختلاف کو جائز رکھتا ہوں ۔ اسی طرح اگر نبی ﷺ سے کسی معاملے میں دو یا تین طریقہ ہاے عمل ثابت ہوں تو ان سب کو جائز اور سنت کی حدکے اندر شمار کرتا ہوں ۔مثلاً نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا میرے نزدیک دونوں برابر ہیں ۔چنانچہ میں ان دونوں صورتوں پر عمل کرلیتا ہوں ،کبھی اِس پر اور کبھی اُس پر۔مجھے اپنے اس مسلک پر پورا پورا اطمینان ہے اور میں نے سوچ سمجھ کر اِسے اختیار کیا ہے۔ اپنے اطمینان کے لیے وضاحت مطلوب ہے۔

اختلاف کے جائز حدود

تحریک کا ہم درد ہونے کی حیثیت سے اس کے لٹریچر اور جرائد واخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں ۔اب تک بزرگان دیو بند اور دوسرے علما کی طرف سے جو فتوے شائع ہوتے رہے ہیں اور ان کے جو جوابات امیر جماعت ہند و امیر جماعت پاکستان ودیگر اراکین جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں ، سب کو بالالتزام پڑھتا رہا ہوں ۔اپنے بزرگوں کی اس حالت کو دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے مگر سواے افسوس کے اور چارہ کوئی نظر نہیں آتا۔
ان فتووں کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ تکفیر وتفسیق کا معاملہ جماعتِ اسلامی اور بزرگان دیو بند ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے،بلکہ جب ہم اسلاف کرام و ائمۂ عظام کی سیرتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ان بزرگوں کی سیرتوں میں بھی اس مسئلے کو مختلف فیہ پاتے ہیں ۔مثلاً ایک گروہ میں امام ابن تیمیہؒ، امام ابن حزم اَندلسیؒ، امام ابن جوزیؒ وغیر ہم اکابر ہیں ۔دوسرے گروہ میں امام ابن العربی ؒ،امام غزالی اور امام ولی اﷲؒجیسے بزرگ ہیں ۔ان میں سے پہلا گروہ کہتا ہے کہ لا الٰہ اِلا اللّٰہ کا مطلب لا معبود الا اللّٰہ ({ FR 1605 }) ہے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کا مطلب لا موجود الا اللّٰہ ({ FR 1606 })ہے۔ پہلا گروہ دوسرے گروہ کے اس عقیدے کو کفر والحاد کہتا ہے۔دوسرا گروہ اپنے اس عقیدے کو توحید کا اعلیٰ واکمل درجہ تصور کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ و ہ کلمہ جس کی تشریح کے لیے قرآن نازل کیا گیا،اسی کے متعلق علماے اُمت وائمۂ وقت کا یہ اختلاف کیوں ہے؟
اُمید ہے کہ آپ اس مسئلے پر ترجمان القرآن میں مفصل بحث فرمائیں گے۔

حضرت آدم ؈ کی تخلیق اور تربیت

قرآن مجید نے حضرت آدم ؈ کا ذکر جس انداز سے کیا ہے،وہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ نوع بشری کے یہ سب سے پہلے رکن بڑے ہی مہذب تھے۔اس سلسلے میں جو چیز میرے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس متمدن انسان کی صلب سے وحشی قبائل آخر کس طرح پیدا ہو گئے۔ تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ قبائل اخلاق اور انسانیت کی بالکل بنیادی اقدار تک سے ناآشنا ہیں ۔ نفسیات بھی اس امر کی تائید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وحشی انسانوں اور حیوانوں کے مابین کوئی بہت زیادہ فرق نہیں سواے اس ایک فرق کے کہ انسان نے اپنی غور وفکر کی قوتوں کو کافی حد تک ترقی دے دی ہے۔ یہ چیز تو مسئلۂ ارتقا کو تقویت پہنچاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس معاملے میں راہ نمائی فرما کر میری اس خلش کو دور کریں گے اور اس امر کی وضاحت فرمائیں گے کہ ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی اور اس کے جبلی قویٰ کس سطح پر تھے؟

حضرت حوا کی پیدائش

حضرت حوا کی پیدائش کے متعلق تفہیم القرآن جلد۱، صفحہ۳۱۹ میں جناب نے تصریح کی ہے کہ آدم ؈ کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ حدیث بخاری خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ کا کیا جواب ہوگا؟

تفہیم القرآن جلد۱، سورۂ النساء، حاشیہ نمبر۱کے تحت آپ نے لکھا ہے کہ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے بارے میں عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدمؑ کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا۔ لیکن کتاب اللّٰہ اس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔‘‘ اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ حدیث جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے یہ تو بخاری و مسلم کی ہے۔

طوفانِ نوح کی عمومیت

آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ طوفانِ نوح عام نہیں تھا۔لیکن ظاہری قرائن اس بات کے خلاف ہیں ۔ اوّل کشتی کس لیے بنائی گئی تھی؟کیوں نہ حضرت نوح ؈ کو ہجرت کرنے کا حکم دیاگیا؟دوم کشتی میں حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا لینا بھی اس بات کا مؤید ہے کہ طوفان نہایت عام تھا۔حضرت نوح ؈ کی بددُعا میں بھی اس عمومیت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ہے کہ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ( نوح:۲۶)

حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار لوگ

ثانیاً آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی موجودہ انسانی نسل ان سب لوگوں کی ہے جو کہ حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔آپ نے ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل:۳ ) سے اس کی دلیل اخذ کی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ،کیوں کہ نوح ؈ کے ساتھ ان کے تین بیٹے بھی کشتی میں سوار تھے۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ سے مراد حضرت نوح؈ کے بیٹے ہیں نہ کہ کچھ اور لوگ۔دوسری جگہ اس کی تفسیر خود قرآن کے یہ الفاظ کرتے ہیں کہ وَجَعَلْنَا ذَرِیَّتَہٗ ھُمْ الْبٰقِیْن (الصافات:۷۷) کتنے کامل حصر کے الفا ظ ہیں !