آلات کے ذریعے سے توالد وتناسل

کیمیاوی آلات کے ذریعے سے اگر مرد کا نطفہ کسی عورت کے رحم میں پہنچا دیا جائے اور اس سے اولاد پیدا ہو، تو یہ عمل مضرت سے خالی ہونے کی وجہ سے مباح ہے یا نہیں ؟ اور اس عمل کی معمولہ زانیہ شمار کی جائے گی اور اس پر حد جاری ہوگی یا نہیں ؟ اس امر کا خیال رکھیے کہ آج کل کی فیشن دار عورت مرد سے بے نیاز ہونا چاہتی ہے۔وہ اگر سائنٹی فِک طریقوں سے اپنے حصے کی نسل بڑھانے کا فریضہ ادا کردے تو پھر اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔امریکا میں اس طرح پیدا ہونے والی اولاد کو ازرُوئے قانون جائز اولاد تسلیم کیا گیاہے۔

استمناء بالید masterbation کا شرعی حکم

ایک شخص کا شباب عروج پر ہے۔نفسانی جذبات کا زور ہے۔اب ان جذبات کو قابو میں رکھنے کی چند ہی صورتیں ہوسکتی ہیں :
یہ کہ وہ نکاح کرے۔ مگر جس لڑکی سے اُس کی نسبت ہے وہ اتنی چھوٹی ہے کہ کم ازکم تین چار سال انتظار کرنا ہوگا۔
یہ کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کہیں اور شادی کرلے۔مگر ایسا کرنے سے تمام خاندان ناراض ہوتاہے، بلکہ بعید نہیں کہ اُس کا اپنے خاندان سے رشتہ ہی کٹ جائے۔
یہ کہ وہ اس نیت سے کوئی عارضی نکاح کرلے کہ اپنی خاندانی منسوبہ سے شادی ہوجانے کے بعد پہلی بیوی کوطلاق دے دے گا۔مگر اس میں اورمتعہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
یہ کہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے مسلسل روزے رکھے۔مگر وہ ایک محنت پیشہ آدمی ہے جسے تمام دن مشغول رہنا پڑتا ہے۔اتنی محنت روزوں کے ساتھ سخت مشکل ہے۔
آخری چارۂ کار یہ ہے کہ وہ زنا سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سے کام لے۔کیا ایسے حالات میں وہ اس طریقے کو اختیا ر کرسکتا ہے؟

بندوق کے شکار کی حلّت وحرمت

آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں تکبیر پڑھ کر چھوڑی ہوئی بندوق کے مرے ہوئے شکار کو حلال لکھ کر ایک نئی بات کا اختراع کیا ہے({ FR 1427 }) جس پر مندرجہ ذیل سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔مہربانی فرما کر جواب دے کر مشکور فرماویں ۔
۱۔ چاروں امام متفق ہیں کہ بندوق سے مرا ہوا شکار بوجہ چوٹ سے مرنے کے ناجائز اور حرام ہے، پھر آپ نے کن دلائل کی بِنا پر اس کو جائز لکھا ہے۔
۲۔ بندوق کی گولی میں دھار نہیں ہوتی بلکہ اس کی ضرب شدید سے جانور مرتا ہے۔ کارتوسوں پر عام طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس کی طاقت اتنے پونڈ ہے، یہ نہیں ہوتا کہ اس کی دھار اتنی تیز ہے۔ضرب سے مرا ہوا شکار قطعی ناجائزہے اور یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔
۳۔ ’’تفسیر حقانی‘‘ میں لکھا ہے کہ قاضی شوکانی نے بندوق کے مارے ہوئے کے حرام ہونے میں اختلاف کیا ہے لیکن قاضی صاحب کا اختلاف حجت نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وہ مجروح احادیث بیان کرنے والا ہونے کے علاوہ اہل تشیع کی طرف میلان رکھتا ہے۔
۴۔ اس مسئلے کو فروع کہنا عوام کو دھوکا دینا ہے۔ کیا حرام کو حلال کرنا بھی فروع ہی رہے گا؟

بیمہ کا جواز وعدم جواز

انشورنس کے مسئلے میں مجھے تردد لاحق ہے،اور صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آسکا کہ آیا بیمہ کرانا اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے یا ناجائز؟اگر بیمے کا موجودہ کاروبارناجائز ہو تو پھر اسے جائز بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں ۔اگر موجودہ حالات میں ہم اسے ترک کردیں تو اس کے نتیجے میں معاشرے کے افراد بہت سے فوائد سے محروم ہوجائیں گے۔دنیا بھر میں یہ کاروبار جاری ہے۔ہر قوم وسیع پیمانے پر انشورنس کی تنظیم کرچکی ہے اور اس سے مستفید ہورہی ہے۔مگر ہمارے ہاں ابھی تک اس بارے میں تأمل اور تذبذب پایا جاتا ہے۔آپ اگر اس معاملے میں صحیح صورت حال تک راہ نمائی کریں تو ممنون ہوں گا۔

انشورنس کو حرمت سے پاک کرنے کی تدابیر

انشورنس کے بارے میں آپ کا یہ خیال درست ہے کہ اس میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں ۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ اس کے لیے طویل اور مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ میں نے اب تک اپنی انشورنس کمپنی پر لائف انشورنس کے کاروبار سے احتراز کیا ہے۔ لیکن اب غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زندگی کے بیمے کی قباحتوں کو درج ذیل تدابیر سے رفع کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ زرضمانت حکومت کے پاس جمع کراتے وقت یہ ہدایت دی جاسکتی ہے کہ اس روپے کو سودی کاروبار میں لگانے کے بجاے کسی سرکاری کارخانے یا پی۔آئی۔ڈی۔ سی({ FR 1566 }) میں حصص خریدے جائیں ۔ کوشش کی جائے تو امید ہے کہ حکومت اس بات کو مان لے گی۔ اس طرح سودی کام میں اشتراک سے نجات ہوسکتی ہے۔
۲- کمپنی کو اختیار ہے کہ جس فرد کا چاہے بیمہ منسوخ کر دے یا پہلے ہی قبول نہ کرے۔ ہم قواعد میں یہ گنجائش رکھ سکتے ہیں کہ جو صاحب چاہیں اپنی رقم وارثوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کی ہدایت کرسکتے ہیں ۔ خدا و رسول کے احکام کی شدت سے پابندی یہ شرط لگا کر بھی کی جا سکتی ہے کہ جو حضرات شرعی تقسیم پر رضامند نہ ہوں ان کا بیمہ قبول نہ کیا جائے تاکہ ہمارے ہاں وہی لوگ بیمہ کرا سکیں جو ہمارے مطلوبہ شرعی اصولوں پر چلیں ۔
۳- قمار کی آمیزش سے بچنے کے لیے بیمہ کرانے والے لوگوں کو یہ ہدایت کرنے پر آمادہ کیا جائے کہ ان کی موت کی صورت میں صرف اتنا روپیا ورثا کو دیا جائے گا جو وہ فی الحقیقت بذریعہ اقساط جمع کروا چکے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ اگرچہ بحالات موجودہ اس کاروبار میں شرکا پہلو بہت غالب ہے لیکن خیر کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل قباحتوں کی شدت محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کا ارادہ کرلیا تھا مگر بعد میں محسوس کیا کہ کوئی ایسی راہ نکالی جائے جس سے دوسروں کے لیے مثال قائم ہوسکے اور اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے انشورنس کا کاروبار چلایا جا سکے۔ آپ تکلیف فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں ۔

انعامی بانڈز

آج کل حکومت کی طرف سے امدادی قرضوں کے تمسکات جو انعامی بانڈز کی شکل میں جاری کیے گئے ہیں ،ان میں شرکت کرنا اور ان پر متوقع انعام حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قمار نہیں ۔ کیوں کہ ہر شخص کی قرض کی اصل رقم بہرحال محفوظ ہے جو بعد میں ملے گی۔اس پر کوئی متعین شرح سے اضافہ بھی بانڈز ہولڈر کو نہیں ملتا جسے سود قرار دیا جائے۔ براہِ کرم اس کاروبار کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے۔کیوں کہ بہت سے لوگ اس معاملے میں خلجان کا شکار ہیں ۔

شراب والی دعوتوں میں شرکت

یہاں ({ FR 1481 }) پر دعوتوں اور پارٹیوں میں شراب کا استعما ل عام طورپر ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ان دعوتوں میں شرکت کرنا چاہیے یا نہیں ؟ اب تک میراطرزِ عمل یہ رہا ہے کہ ایسی جگہوں پر ضرور شرکت کرتا ہوں اور شراب اور دوسری اس قسم کی چیزوں سے انکار کردیتا ہوں تاکہ کم ازکم ان کو یہ احساس تو ہوجائے کہ بعض لوگوں کو ہماری یہ مرغوب غذا ناپسند ہے۔

دعوت میں شراب پیش کرنا

اگر کوئی دعوت کچھ لوگوں کو یہاں نائیجیریا میں دی جائے تو اس میں شراب دی جاسکتی ہے یا نہیں ،کیونکہ یہاں کے لوگ بغیر شراب کے دعوت ہی نہیں سمجھتے اور اگر اس کا استعمال نہ کیا جائے تو اس کا کیا بدل دیا جائے؟

جماعت اسلامی کے تعلیمی پروگرام کے بارے میں ایک اندیشہ

تعلیمی کانفرنس کی مجوزہ اسکیم (شائع شدہ ترجمان القرآن و کوثر) بہت اہم اور ضروری ہے لیکن مجھے اس کے متعلق کچھ شبہات ہیں ۔ میں صاف کہوں گا کہ اگر میرا بس چلے تو بقول برناڈشا ’’میں تمام دنیا کی یونی ورسٹیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں ۔‘‘ آپ خود سوچیں کہ آنحضرتﷺ نے کون سی یونی ورسٹی یا کالج بنایا تھا۔ مگر پھر بھی عظیم الشان ہمہ گیر انقلاب برپا کر دکھایا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ افیون کی اس گولی سے کام کی رفتار بہت سست ہو جائے گی اور جماعت اسلامی کا ادارہ ایک انقلابی اسلامی ادارہ کے بجائے زیادہ سے زیادہ ایک تجارتی ادارہ بن کے رہ جائے گا۔ کیا دیوبند اور جامعہ ملیہ اور اسی طرز کی دوسری درسگاہیں انقلابی تحریکات کا مرکز بن سکتی ہیں ؟ وہاں یقیناً درس و تدریس بھی ہے اور قال اللہ اور قال الرسول کا غلغلہ بھی۔ لیکن کیا صحیح معنوں میں رسول اللہﷺ کے اصل مشن کے لیے کوئی کام ہو رہا ہے؟ اس لیے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔