جماعت ِاسلامی اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبۂ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم(۱۹۴۷ء) ہورہا ہے کہ اس صوبے کے لوگ تقسیمِ ہند کے بعد اپنے صوبے کوہندستان کے ساتھ شامل کرانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ وہ لوگ جو جماعت اسلامی پر اعتماد رکھتے ہیں ،ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کو اس استصواب میں راے دینی چاہیے اور کس طرف سے راے دینی چاہیے؟کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس استصواب میں بھی ہماری پالیسی اسی طرح غیر جانب دارانہ ہونی چاہیے جیسے مجالسِ قانون ساز کے سابق انتخابات میں رہی ہے، ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں بھی شمار ہوگا جس پر پاکستان قائم ہورہا ہے۔

کفر وارتداد کی مہم میں پاکستان کا فرض

ہندستان میں کفر وارتداد کی مہم تیز ہے۔کیا ان حالات میں پاکستان کا فرض نہیں کہ وہ بزور شمشیر ہندستان پر قابض ہوکر آپ کی صالحانہ قیادت کی روشنی میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لے آئے؟ اس صورت میں کیاموجودہ مالی اور اقتصادی معاملات اسلامی علم بلند کرنے کے راستے میں کبھی روک تو ثابت نہیں ہوسکتے؟

قراردا د مقاصد کی تشریح

مجلس دستور ساز پاکستان کی منظور کردہ قرار داد مقاصد متعلقہ پاکستان میں ایک شق حسب ذیل ہے:
’’جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طورپر زندگی کو اسلامی تعلیمات ومقتضیات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول میں متعین ہیں ،ترتیب دے سکیں ۔‘‘
اس کام کا اصل تعلق تو دراصل حکومت کے انتظامی اُمور سے ہے کہ وہ اس کے لیے کیا کیا اقدام کرتی ہے۔قانونی طور پر حکومت کو مجبور کرنے نیز اس سلسلے میں غفلت یا عدم تعاون یا معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی صورت میں دستور میں کیا کیا(provisions) ہونی چاہییں کہ یہ مقصد بروے کار آجائے؟ نیز دستوری طور پر حکومت کو اس سلسلے میں غفلت برتنے، عدم تعاون یا معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی صورت میں کس طرح سے روکا جاسکے؟اور ایک شہری کو حکومت کے خلاف عدلیہ کے سامنے اس بات کو لانے کے لیے کیا کیا تدابیر ہونی چاہییں ؟

عربی بطورِ قومی وسرکاری زبان

ایک صاحب کا انگریزی مضمون ارسال خدمت ہے،جو اگرچہ مسلم لیگ کے حلقے میں ہیں لیکن اسلامی حکومت کے لیے آواز اُٹھاتے رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام کے منشا کے مطابق تبدیلی آئے۔فی الحال یہ ایک خاص مسئلے پر متوجہ ہیں ۔ یعنی اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری ملکی زبان بروے دستور عربی قرار پائے۔ان کے دلائل کا جائزہ لے کر اپنی راے سے مطلع فرمایئے۔
محولہ بالا مضمون درج ذیل ہے:
’’پاکستان کی قومی زبان کے مسئلے کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہونے والا ہے۔ میری التجا یہ ہے کہ آپ عربی زبان کے حق میں آواز بلند کرنے پر پوری توجہ صرف کریں ۔یہ معاملہ اسلام اور پاکستان کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، اور اگر آپ میری ان سطور کو اپنے مؤقر جریدے میں شائع فرما دیں تو میں بہت شکر گزار ہوں گا۔
عربی زبان کلام الٰہی یعنی قرآن شریف کی زبان ہے اور قرآن شریف ہی پر سارے اسلام کا دارو مدار ہے۔اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے عربی سیکھنا ضروری ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کے ارشاد کے بموجب عالم آخرت کی زبان بھی عربی ہوگی۔پھر اسلام کے سارے سرمایۂ روایات کے علمی مآخذ عربی زبان ہی میں ملتے ہیں ۔
بجاے خود عربی زبان دنیا کی زندہ کثیر الاستعمال اور وسیع الظرف زبانوں میں سے ہے۔پھر عرب،مشرق وسطیٰ اور افریقا کی تمام اسلامی حکومتوں اور بحیرۂ روم کے آس پاس یورپ کے بعض علاقوں کی، جو اکثریت کے لحاظ سے مسلم علاقے ہیں ، عربی ہی سرکاری اور قومی زبان ہے۔علاوہ بریں قرآن شریف کے واسطے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک بشمول پاکستان عربی سے شناسا ہے۔
عربی زبان بحیثیت ایک تمدنی ذریعۂ ربط کے وسیع استعداد رکھتی ہے اور ہر قسم کی سائنٹی فِک، فنی اور عام اصطلاحات ومصطلحات کو اپنے اندر جذب کرسکتی ہے۔ اُردو اور فارسی کو بھی اس معاملے میں بیش تر عربی کا دست نگر ہونا پڑتا ہے۔ جیسا کہ زاہد حسین گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے عربی کو پاکستا ن کی سرکاری زبان بنانے کی دعوت دیتے ہوئے زیادہ وضاحت سے بتایا تھا۔
ساری دنیا کے مسلمانوں کا خدا ایک ہے، ان کی آسمانی کتاب ایک ہے،اور وہ بحیثیت مجموعی ملت واحدہ ہیں ۔ لہٰذا بالکل اسی طرح ان کی قومی زبان بھی ایک ہی —یعنی عربی — ہونی چاہیے۔چاہے وہ کئی مختلف زبانیں بولتے ہوں ۔ ملت اسلامیہ کی ترکیب کا دارومدار ہی تنوعات میں یک جہتی پیدا ہونے پر ہے۔
قرارداد مقاصد پاکستان کے دستور کا اصل الاصول قرارپاچکی ہے۔اس کے تحت بنیادی اُصولوں کی کمیٹی نے بالکل بجا طور پر مسلمانوں کے لیے قرآن کی لازمی تعلیم کی سفارش کی ہے۔خود یہ سفارش منطقی طور پر عربی زبان کو پاکستان کی قومی زبان بناے جانے کو لازم قرار دیتی ہے۔
اس فیصلے سے پاکستان کے ہر حصے کے مسلمانوں میں ایک روحِ تازہ دوڑ جائے گی، اور بالآخر یہ چیز پاکستان —دنیا کی عظیم ترین مسلم مملکت — کو ملت اور عالم اسلام کی سیاسی تنظیم میں شایان شان حصہ ادا کرنے اور ممتاز مقام حاصل کرنے کی ضامن ہوگی۔ یہ اس صورت میں ناممکن ہے جب کہ کسی دوسری زبان کو قومی زبان قرار دیا جائے۔
سرکاری زبان کو بدلنے کا معاملہ بڑا بھاری معاملہ ہے۔انگریزی زبان کو ہندستان میں سرکاری زبان کی حیثیت سے اپنی جگہ پیدا کرنے میں کئی سال لگے۔ اب پاکستان کو اپنی نئی سرکاری زبان اختیار کرنے کے لیے بھی وہی صورت پیش آئے گی۔چاہے وہ کوئی سی زبان بھی ہو۔ ہمارے لیے اب قرین مصلحت یہی ہے کہ ہم ذرا سی دُور اندیشی سے کام لیں اور اس زبان کے حق میں فیصلہ کریں جو ہماری سرزمین کے لیے زیادہ سے زیادہ راس آنے والی ہے اور بلحاظ نتائج بعید کے زیادہ مفید ثابت ہونے والی ہے۔
عربی زبان طباعت، سٹینو گرافی اور ٹائپ کے پہلو سے خوب اچھی طرح فروغ یافتہ سہولتیں رکھتی ہے۔مادری زبانوں کو درکنار رکھ کر دیکھا جائے تو مسلمان عوام دوسری زبان کے مقابلے میں عربی کے لیے امتیازی جذبہ احترام رکھتے ہیں ۔ہمیں کبھی عوام کے جذبات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔
پھرجب کہ مسلم ممالک —جو زیادہ تر عربی بولنے والے ہیں — کا متحدہ بلاک بنانے کی اسکیم پیش نظر ہے،تو پاکستان عربی کو اپنی سرکاری زبان قرار دے کر اس معاملے میں اپنا حصہ اداکرنے کے لیے زیادہ بہتر مقام پیدا کرسکتاہے۔دنیا بھر کی مسلمان مملکتوں کی لنگوا فرنکا[lingua franca] اگر کوئی زبان ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف عربی ہے۔
پھر ہر سال کی تقریب حج اسلام کی پانچ بنیادی عبادات میں سے ایک ہے جو بحیثیت ایک فریضے کے دنیا بھر کے ذی استطاعت مسلمان سرانجام دیتے ہیں ۔سالانہ حج اور مسلمانوں کی دوسری ہنگامی کانفرنسوں کے موقع پر کسی دقت اور غیر ضروری خرچ کے بغیر تما م مسلمان ممالک کے درمیان خیالات وافکار کا تبادلہ اور کاروباری تعلقات کا استحکام عربی زبان جاننے ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔
پھر یہ کہ مصر،شام اور لبنا ن کے عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح ہمارے غیر مسلم ہم وطنوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کی سرکاری زبان عربی ہو۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اُردو کو عربی پر ترجیح دیں ،جب کہ ان کو مغل دور میں فارسی کے خلاف اور ماضی قریب میں انگریزی کے خلاف کوئی شکایت نہ پیدا ہو ئی۔
عربی زبان پاکستان کی سرکاری زبان قرار پاکر پاکستان کی علاقائی زبانوں ،ان کے رسم الخط اور مستقبل میں صحیح خطوط پر ان کے ارتقا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
علاوہ بریں عربی زبان اختیا ر کرنے سے پاکستان بھر میں ہمارے بچوں کے لیے تعلیمی بوجھ میں نمایاں کمی آجائے گی۔ کیوں کہ اس صورت میں ان کے لیے صرف اپنی مادری زبان کی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہوگا، اور مزید کسی زبان کو سیکھنا چاہیں تو یہ ان کا اپنا اختیاری معاملہ ہوگا۔اُردو یا کسی دوسری علاقائی زبان کو اگر پاکستان کی قومی زبان بنایا گیا تو اُن کے کندھوں پرسہ گونہ بار آپڑے گا۔کیوں کہ عربی تو ہرحال میں مسلمان خاندانوں میں گھریلو طور پر پڑھی جائے گی۔
برعکس اس کے اگر خالص جمہوری نقطۂ نظر سے پاکستا ن کی زبان کا تعین کیا جائے تو پھر بنگالی جوپاکستان کی۶۰ فی صدی آبادی کی زبان ہے،اپنے آ پ کو غور کے لیے سب سے پیش پیش رکھنے کی مستحق ہے۔اُردو ایک محدود گروہ میں بولے جانے کی وجہ سے سندھی،پنجابی اور پشتو سے زیادہ قابل لحاظ نہیں ہوسکتی جن کے بولنے والے اپنی بولیوں سے کچھ کم محبت نہیں رکھتے۔اس کا لحاظ رہے کہ اُردو پاکستان کے کسی صوبے میں خصوصی طور پر نہیں بولی جاتی۔اندریں حالات عربی زبان ہی اس کا وسیلہ ہوسکتی ہے کہ ہم ہر دو خطوں کے لوگ پاکستانی وحدت اسلامیہ کے وسیع تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی علاقائی زبانوں کی علم برداری سے دست بردار ہوجائیں ۔‘‘

طریق انتخاب:مخلوط یا جداگانہ

مجھے آپ کی خدمت میں ایک وضاحت پیش کرنا ہے۔میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی ذاتی حیثیت میں تجربتاً دس سالوں کے لیے مخلو ط انتخاب کی حمایت کی تھی۔اپنے حق میں دلائل دینے کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مخلوط انتخاب کی مخالفت میں سب سے اونچی آواز جماعت اسلامی کی طرف سے اٹھائی جارہی ہے۔پھر میں نے کم وبیش مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے:’’جماعت اسلامی میں ایسے لوگ ہیں جن کے لیے میرے قلب وجگر میں انتہائی احترام وعقیدت کا سرمایہ ہے، لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جماعت نے پاکستان کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کی تھی اور اگر ہندستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا اس صورت میں متحدہ ہندستان میں جماعت اسلامی جداگانہ انتخابات کے حق میں آواز بلند کرتی؟‘‘ اس کے بعد جماعت کے بعض دوستوں نے مجھ سے گلہ کیا۔میں نے ان سے عرض کیا کہ میں ایک دلیل تعمیر کررہا تھا جس سے مقصود جماعت اسلامی پر حملہ کرنا نہیں تھا،بلکہ اپنے نقطۂ نگاہ کے جواز میں وزن پیدا کرنا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں بھی اس صراحت کو پیش کرنا ضروری سمجھا تاکہ غلط فہمی رفع ہوجائے۔

مخلو ط انتخاب سے پاکستان کی وہ حیثیت تو بلاشبہہ کمزور ہوجاتی ہے جسے اسلام کے نام سے نمایاں کیا گیا ہے،لیکن جداگانہ انتخاب سے سواے مسلم قوم پرستی کے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ اسلام کے حق میں تو ایسا جداگانہ انتخاب قطعی بے معنی بلکہ نقصان رساں ہے جس کے بعد بھی اسمبلی میں مسلم وغیر مسلم دونوں کو مساوی حق راے دہی حاصل ہو، اسمبلی کا صدر ونائب صدر مسلم وغیر مسلم دونوں بن سکتے ہوں ، نمائندہ وزارت میں دونوں لیے جاسکتے ہوں ، اور احکام اسلامی کی توضیح وتنقید، اتفاق واختلاف آرا اور ووٹنگ میں کلمہ گو اور غیر کلمہ گو دونوں یکساں طور پر حصہ لے سکتے ہوں ۔ ایسی صورت میں اسلام کو کوئی حقیقی فائدہ پہنچنے کے بجاے اسلام کی عمومیت و عالم گیریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اسلام کا دوسروں کے مقابلے میں فریق جنگ بن جانے کا خطرہ ہے۔ غیر مسلم قومیں خواہ مخواہ اسے اپنا سیاسی و معاشی حریف سمجھنے لگیں گی، غیر مسلموں کے دل اسلام کی طرف سے اور مقفل ہوجائیں گے، ملک میں دوسری قوموں سے کش مکش زیادہ سے زیادہ بڑھتی جائے گی‘ اور ہوسکتا ہے کہ آیند ہ چل کر پاکستان میں اسلام بھی بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں کا قومی مذہب بن کر رہ جائے۔ اگر مسلمانوں کی پوزیشن اس ملک میں وہی رہے جو آج ہے، تو کوئی حقیقی اسلامی فائدہ حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ضرور اس پر غور فرمائیں اور ان نازک مواقع پر ملت اسلامیہ کی صحیح صحیح رہبری فرمائیں ۔

مسلمانوں کا مشترکہ نصب العین

کچھ مدت پہلے میرا یہ خیال تھا کہ صرف ہم ہندوئوں میں ہی ایک مشترکہ نصب العین نہیں ہے۔ بخلاف اس کے مسلمانوں میں اجتماعی زندگی ہے اور ان کے سامنے واحد نصب العین ہے۔ لیکن اب اسلامی سیاست کا بغور مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں کاحال ہم سے بھی دگرگوں ہے۔ میں نےمختلف مراکز فکر کے مسلم راہ نمائوں سے ان کے نصب العین اورطریقۂ کار کے بارے میں ایک متلاشیِ حق کی حیثیت سے چند ایک امور جو میرے لیے تحقیق طلب تھے،دریافت کیے۔ ان کے جوابات موصول ہونے پر میرا پہلا خیال غلط نکلا اور معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں بھی طریقۂ کار اور نصب العین کے بارے میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے۔
(اس موقع پر مستفسر نے جماعت اسلامی سے اختلاف رکھنے والے بعض اصحاب کی تحریروں سے چند سطور نقل کی ہیں ۔انھیں حذف کیا جاتا ہے)
ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ آپ کے مشترک العقیدہ راہ نما کس شدید اختلافِ آرا میں مبتلا ہیں ۔ان ٹھوس حقائق اور واقعات کو نظر انداز کرکے محض کتابوں کے صفحات پر ایک چیز کو نظریے کی شکل میں پیش کردینا اور بات ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا قطعاً مختلف چیز ہے۔سیاست ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔کیا آپ میرے اس سارے التماس کو سامنے رکھ کراپنے طریقۂ کار اور راہِ عمل سے بہ تفصیل مطلع فرمائیں گے؟

آپ نے جمہوریت کو قرآن وسنت کا منشا قرار دیا ہے۔آپ بخوبی واقف ہیں کہ فی زماننا جمہوریت ایک مخصوص طرز حکومت کا نام ہے جس کی بنیاد عوام کی غیر محدود حاکمیت کے تصور پر قائم ہے، جسے ہم کسی طرح بھی کتاب وسنت کی منشا کے مطابق قرار نہیں دے سکتے۔ آپ جمہوریت کے لفظ کو اس کے معروف معنی سے ہٹا کر استعمال کررہے ہیں ۔آپ نے خود اسلامی طرز حکومت کے لیے ’’تھیوڈیما کریسی‘‘ کی اصطلاح وضع کی تھی، اب اس اصطلاح کو چھوڑ کر آپ ڈیما کریسی کی طرف کیوں رجعت کررہے ہیں ۔

خلافت کے لیے قریشیّت کی شرط

اسلام تمام دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ سب انسان بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہیں ،گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ،اسلام کے حرم میں داخل ہوتے ہی سب اونچ نیچ برابر ہوجاتی ہے،اگر کوئی فرق رہتا ہے تو وہ بس اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ )الحجرات:۱۳) ’’اللہ کے ہاں تمھارے اندر سب سے زیادہ معزز سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ کے اصول پر رہتا ہے۔پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے جس کا مفہوم یہ یا اس کے قریب ہے کہ خلافت قریش میں رہنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے تو پھر ہٹلر ہی نے کیا بُرا کیا اگر اپنی قوم کو تمام دنیا کی قوموں پر فائق اور سرداری کاحق دار ٹھیرایا؟اور پھر اگر ایک قریشی کے لیے یہ حق ہے کہ قریش کو نہ صرف عجم پر بلکہ خود اہلِ عرب پر بھی فوقیت دے تو آخر مغربی اقوام ہی دوسری قوموں کو کم تر ٹھیرانے میں کیوں حق بجانب نہیں ؟اسلام کی اس دعوت کو حدیث کی اس روایت کے ساتھ کیوں کر منطبق کیا جاسکتا ہے؟