اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ … ( النور:۲۶) کا مفہوم کیا ہے؟

والدین کی اطاعت کے حدود

میں اپنے حالات مختصراً پیش کرتا ہوں ۔مجھے بتلایئے کہ کون سا ایسا طریق ِکار اختیار کروں کہ میرے اسلام میں فرق نہ آئے۔({ FR 2066 })
والدین اُٹھتے بیٹھتے اصرار کررہے ہیں کہ[ نظامِ کفر کی] ملازمت پر واپس چلا جائوں ۔ بحالت موجودہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ خدا کا نافرمان بھی گردانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ صرف ایسے وقت پر والدین کی نافرمانی جائز ہے جب وہ یہ کہیں کہ خدا کو نہ مانو۔باقی تمام اُمور میں والدین کا حکم شرعی طور پر واجب التعمیل ہے۔ عن قریب وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ نوکری پر چلاجائوں تو بہتر، ورنہ میرا ان سے کوئی تعلق نہ رہ سکے گا۔بس وہ اتنی رعایت مجھے دیتے ہیں کہ اگر میں مستقل طورپر ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا تو کم از کم سال ڈیڑھ سال اور اختیار کیے رکھوں ، حتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی بی اے کرلیں اور میری خالی جگہ کو پُرکرسکیں ۔ اس سلسلے میں گناہ وہ اپنے سرلیتے ہیں ۔

بیوی اور والدین کے حقوق

میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں ،جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں ۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے،وہاں بحیثیت بیو ی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے۔ مثلاًاس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاں کہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ واختیار میں رکھا گیا ہے،وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ واختیار میں کردیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے۔ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کررہی ہوں ۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں ؟

خواتین کی تعلیم اور ملازمت

کیا عورتیں لیڈی ڈاکٹر یا نرس یا معلمہ بن سکتی ہیں ؟جیسا کہ ہماری قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے قوم کو اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری عورتیں ان کاموں میں حصہ لے کر گزشتہ نقصانات اورپس ماندگی کی تلافی کریں ۔اسلامی نقطۂ نظر سے عورتیں کیا ان مشاغل کو اختیار کرسکتی ہیں ؟ اور آیا انھیں پردے میں رہ کر ہی انجام دینا ہوگا یا ضرورتاً پردے سے باہر بھی آسکتی ہیں ؟

عورتوں سے مصافحہ اور غضِ بصر

مغربی معاشرے میں رہنے کی ایک دقت یہ ہے کہ دفاتر میں عموماًعورتیں ملازم ہیں ،تعارف کے وقت وہ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہیں ۔ اگر ہم ہاتھ نہ ملائیں تو اسے وہ اپنی توہین سمجھتی ہیں ۔اسی طرح راستوں میں بھی اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ اگر پیدل چلتے وقت ہم نگاہ نیچی رکھیں تو دھکا لگ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔

غیر محرم قریبی اعزّہ سے پردے کی صورت

کیا شوہر بیوی کو کسی ایسے رشتہ دار یا عزیز کے سامنے بے پردہ آنے کے لیے مجبور کرسکتا ہے جو شرعاًبیو ی کے لیے غیر محرم ہو؟ نیز یہ کہ سسرال اور میکے کے ایسے غیر محرم قریبی رشتہ دار جن سے ہمارے آج کل کے نظامِ معاشرت میں بالعموم عورتیں پردہ نہیں کرتیں ، ان سے پردہ کرنا چاہیے یانہیں ؟اور اگر کرنا چاہیے تو کن حدود کے ساتھ؟

اگر کسی غیر محرم رشتہ دار کے ساتھ ایک ہی مکان میں مجبوراًرہنا ہو یا کوئی غیر محرم عزیز بطور مہمان آرہے ہوں تو ایسی حالت میں پردہ کس طرح کیا جاسکے گا؟اسی طرح کسی قریبی عزیز کے ہاں جانے پر اگر زنانے سے بلاوا آئے تو کیا صورت اختیارکی جائے؟

غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب سے پردہ

آپ کی کتاب’’پردہ‘‘ کے مطالعے کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے چند ہفتوں سے عائلی زندگی کو قوانین الٰہیہ کے مطابق بنانے کی سعی شروع کررکھی ہے۔ مگر ہمارے اس جدید رویے کی وجہ سے پورا خاندان بالخصوص ہمارے والدین سخت برہم ہیں اور پردے کو شرعی حدود وضوابط کے ساتھ اختیار کرنے پر برافروختہ ہیں ۔خیال ہوتا ہے کہ کہیں ہم ہی بعض مسائل میں غلطی پر نہ ہوں ۔ پس تسلی کے لیے حسب ذیل اُمور کی وضاحت چاہتے ہیں :
۱۔ سورۂ الاحزاب کی یہ آیت کہ’’ عورتوں پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں کے سامنے پردہ نہ کریں اور نہ اپنے بیٹوں کے سامنے … الخ‘‘ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ آیت میں جن اعزہ کا ذکر ہے،ان کے سوا عورتوں کا کسی دوسرے کے سامنے کسی بھی شکل اور حالت میں آنا( اِلاّبہ اشد مجبوری) صریحاً گناہ ہے۔ اس معاملے میں غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب بالکل برابر ہیں ۔کیا میرا یہ خیال صحیح ہے ؟