مُتعہ کی بحث

جناب نے سورہ المؤمنون کی تفسیر کرتے ہوئے مُتعہ کے متعلق حضرت ابن عباسؓ اور دیگر چند صحابہ وتابعین کے اقوال نقل کر کے ارشاد فرمایا کہ یہ سب حضرات اضطراری صورت میں متعہ کے قائل تھے۔ مگر تقریباً اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے حلت متعہ سے رجوع کرلیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ حضرت ابن عباسؓ کا رجوع آپ کی نظر سے کیوں مخفی رہا۔ تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ اور تابعین کا حرمت متعہ پر کامل اتفاق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے بھی متعہ کو حرام مانا ہے۔ لیکن اضطرار کی ایک فرضی اور خیالی صورت تحریر فرما کر اسے جائز ٹھیرا دیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنی راے پر نظر ثانی کریں گے۔یہ اہل سنت کا متفقہ مسئلہ ہے۔

جناب ازراہِ کرم درج ذیل احادیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ا س کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
حدیث نمبر۱:حضرت سبرہؓ کی روایت نکاح متعہ کے متعلق کہ ہم دو ساتھی بنی عامر کی کسی عورت کے پاس گئے اور اُسے اپنی خدمات پیش کیں ۔
حدیث نمبر۲: حضرت جابررضی اللّٰہ عنہ کی روایت کہ ہم نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عہد میں مٹھی بھر آٹا دے کر عورتوں کو استعمال کرلیتے تھے اور اس حرکت سے ہمیں حضرت عمرؓ نے روکا۔

بدکاروں کی باہمی مناکحت کا موزوں ہونا

میں نے ایک دوشیزہ کو لالچ دیا کہ میں اس سے شادی کروں گا۔پھر اس کے ساتھ خلاف اخلاق تعلقات رکھے۔میں نہایت دیانت داری سے اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس لڑکی کے خاندان کی عام عورتیں زانیہ اور بدکار ہیں ۔یہاں تک کہ اس کی ماں بھی۔ اب مجھے خوف ہے کہ اگر میں اس لڑکی سے شادی کرلوں تو وہ بھی بدچلن ثابت نہ ہو۔ ترجمان القرآن کے ذریعے سے مطلع کیجیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ … ( النور:۲۶) کا مفہوم کیا ہے؟

والدین کی اطاعت کے حدود

میں اپنے حالات مختصراً پیش کرتا ہوں ۔مجھے بتلایئے کہ کون سا ایسا طریق ِکار اختیار کروں کہ میرے اسلام میں فرق نہ آئے۔({ FR 2066 })
والدین اُٹھتے بیٹھتے اصرار کررہے ہیں کہ[ نظامِ کفر کی] ملازمت پر واپس چلا جائوں ۔ بحالت موجودہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ خدا کا نافرمان بھی گردانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ صرف ایسے وقت پر والدین کی نافرمانی جائز ہے جب وہ یہ کہیں کہ خدا کو نہ مانو۔باقی تمام اُمور میں والدین کا حکم شرعی طور پر واجب التعمیل ہے۔ عن قریب وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ نوکری پر چلاجائوں تو بہتر، ورنہ میرا ان سے کوئی تعلق نہ رہ سکے گا۔بس وہ اتنی رعایت مجھے دیتے ہیں کہ اگر میں مستقل طورپر ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا تو کم از کم سال ڈیڑھ سال اور اختیار کیے رکھوں ، حتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی بی اے کرلیں اور میری خالی جگہ کو پُرکرسکیں ۔ اس سلسلے میں گناہ وہ اپنے سرلیتے ہیں ۔

بیوی اور والدین کے حقوق

میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں ،جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں ۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے،وہاں بحیثیت بیو ی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے۔ مثلاًاس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاں کہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ واختیار میں رکھا گیا ہے،وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ واختیار میں کردیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے۔ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کررہی ہوں ۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں ؟

خواتین کی تعلیم اور ملازمت

کیا عورتیں لیڈی ڈاکٹر یا نرس یا معلمہ بن سکتی ہیں ؟جیسا کہ ہماری قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے قوم کو اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری عورتیں ان کاموں میں حصہ لے کر گزشتہ نقصانات اورپس ماندگی کی تلافی کریں ۔اسلامی نقطۂ نظر سے عورتیں کیا ان مشاغل کو اختیار کرسکتی ہیں ؟ اور آیا انھیں پردے میں رہ کر ہی انجام دینا ہوگا یا ضرورتاً پردے سے باہر بھی آسکتی ہیں ؟

عورتوں سے مصافحہ اور غضِ بصر

مغربی معاشرے میں رہنے کی ایک دقت یہ ہے کہ دفاتر میں عموماًعورتیں ملازم ہیں ،تعارف کے وقت وہ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہیں ۔ اگر ہم ہاتھ نہ ملائیں تو اسے وہ اپنی توہین سمجھتی ہیں ۔اسی طرح راستوں میں بھی اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ اگر پیدل چلتے وقت ہم نگاہ نیچی رکھیں تو دھکا لگ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔