شادی پر استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا

ایک مفلس مسلمان اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔افلاس کے باوجود دنیا والوں کا ساتھ دینے کا بھی خواہش مند ہے،یعنی شادی ذرا تزک واحتشام سے کرکے وقتی سی مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس کی راہ نمائی کیسے کی جائے؟

پاکستان میں جماعت اسلامی کے مخالف حضرات پھر اس مہم کو چلانے کی تیاریاں کررہے ہیں جو مارشل لا سے قبل اس کے چلانے میں سرگرمی دکھا رہے تھے۔ یعنی یہ کہ آپ اور جماعت اسلامی کو بدنام کیا جائے۔چنانچہ بعض خاص جرائد کے دیکھنے سے بخوبی واضح ہے۔ ان حضرات کی تقریروں میں بھی اس قسم کی باتیں عام اجتماعات اور اجلاسوں میں سنی جاتی ہیں اور منظر عام پر یہ باتیں آگئی ہیں ۔
اس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ زور اس مسئلے پر دیتے ہیں کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پاکستان میں حدود و قصاص اور شرعی سزائوں کو ’’ظلم‘‘ کہتے ہیں ، حالاں کہ یہ قرآن کی تجویز کردہ سزائیں ہیں ۔ حال ہی میں ایک ممتاز عالم نے قومی اسمبلی میں آپ کے متعلق اس قسم کا بیان دیا ہے جو بعض جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جب ہم جرائم کے انسداد کی غرض سے شرعی سزائوں کے نفاذ کے لیے کوئی بل پیش کرتے ہیں تو الحاد پرست ممبروں کی طرف سے ہماری مخالفت اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ مولانا مودودی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ پاکستان کی مخلوط سوسائٹی میں حدود اور شرعی سزائوں کا نفاذ ظلم ہے۔ اور مولانا کی تحریریں پڑھ کر ہمیں سنائی جاتی ہیں ۔ یہ حضرات اسمبلیوں سے باہر آکر لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور حدودو قصاص اور شرعی سزائوں کے نفاذ کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹ وہی لوگ ڈالتے ہیں جو خود اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ، یعنی آپ اور جماعت اسلامی۔
اس قسم کی بحثیں اب عام وخاص کی مجلسوں میں شروع ہوئی ہیں اور عام طور پر ان بحثوں اور مباحثوں کا اثر عوام اور خواص دونوں پر اچھا نہیں پڑ رہا ہے۔بلکہ وہ نئی نئی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں میں پڑ رہے ہیں ۔جس کے نتائج دُور رس اور اسلام اور عامۃ المسلمین کے حق میں خطرناک ثابت ہوں گے۔ اور جماعت کے کارکنوں کو بھی اس سے ہر جگہ مشکلات پیش آنے کا قوی اندیشہ ہے۔
اس سلسلے میں آپ کا وضاحتی بیان یا کوئی ایسا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا ہے جو پاکستان میں بحالت موجودہ شرعی سزائوں کے نفاذ کے بارے میں آپ کے موقف کی وضاحت کے لیے کافی ہو۔

تفہیمات کا مضمون( قطع ید اور دوسرے شرعی حدود)({ FR 1936 })ایک عرصے سے عنوان بحث بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جناب مفتی صاحب سے رجوع کیا گیا۔ انھوں نے مضمون متذکرہ کو غور سے مطالعہ کرنے کے بعد حکم دیا ہے کہ مندرجہ ذیل استفسار آں جناب سے کیا جائے:
۱۔اسلام کے قانون واصول قطعی طورپر ناقابل تجزیہ ہیں ؟یا کچھ گنجائش ہے؟ مثلا ً:اگر حکومت اجراے حدود کا قانون پاس کردے اور جج حضرات ان قوانین کے عملی نفاذ کے مجاز ہوجائیں لیکن معاشرے کی حالت یہی رہے جو اب ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قانون نافذہی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں شرعی ثبوت کے بعد رجم اور جَلد کی سزا ظلم ہوگی یا نہیں ؟
۲۔ آپ نے تفہیما ت میں لکھا ہے کہ نکاح، طلاق اور حجاب شرعی کے اسلامی قوانین اور اخلا ق صنفی کے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ان حدود کا گہرا ربط ہے جسے منفک نہیں کیا جاسکتا۔حالاں کہ مندرجہ بالا صورت میں یہ ربط ٹوٹ جائے گا۔جو لوگ اس فعل کے ذمہ دارہوں گے (پارلیمنٹ یا حکومت) یقیناً ان کا یہ فعل نامناسب ہوگا۔ مگر کیا ان قوانین کی رو سے عدالت جو حکم اور حد جاری کرے گی کیا یہ حکم اور حد جاری کرنا ظلم ہوگا؟
۳۔ کیا حکومت کو اصلاح معاشرہ کے لیے اجراے حدود کو کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے اور احکام اسلامی کے اجرا میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟

اسلامی ریاست میں شاتم رسو ل ذمّی کی حیثیت

راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح وجنگ کے باب میں صفحہ۲۴۰ ضمن(۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے۔ دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کرکے فتنہ وفساد برپا کرے۔‘‘
فدوی کو اس امر سے اختلاف ہے او رمیں اسے قرآن وسنت کے مطابق نہیں سمجھتا۔ میری تحقیق یہ ہے کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنا اور دوسرے امور جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے،ان سے ذِمّی کا عقد ذمہ ٹو ٹ جاتا ہے۔آپ نے اپنی راے کی تائید میں فتح القدیر جلد ۴ اور بدائع صفحہ ۱۱۳کا حوالہ دیا ہے۔لیکن دوسری طرف علامہ ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ زاد المعاد،تاریخ الخلفاء، عون المعبود، نیل الاوطار جیسی کتابوں میں علماے سلف کے دلائل آپ کی راے کے خلاف ہیں ۔یہاں ایک حدیث کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں : أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا ({ FR 2054 }) ’’حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبیؐ کے خلاف بدزبانی کرتی تھی اور آپؐ پر باتیں چھانٹتی رہتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ نبیؐنے اس کے خون کو راے گاں قرار دے دیا ۔‘‘
ضمناً یہ بھی بیان کردوں کہ یہاں کے ایک مقامی اہل حدیث عالم نے آپ کی اس راے کے خلاف ایک مضمون بعنوان’’ مولانا مودودی کی ایک غلطی‘‘ شائع کیا ہے اور اس میں متعدد احادیث اور علما کے فتاویٰ درج کیے ہیں ۔

اسلامی گھریلوزندگی کی بنیادی خصوصیات

نمونے کی اسلامی گھریلوزندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں ؟ کیا موجودہ گھریلو زندگی اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک طرز کی گھریلو زندگی ہوگی؟ موجودہ گھریلو زندگی میں پرانی ہندستانی روایات کا کتنا دخل ہے؟

فحاشی کی کثرت میں پاک دامن رہنے کا طریقہ

’’پردہ‘‘پڑھنے سے کافی تشفی ہوئی۔ لیکن اکثر مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں اُلجھائو رفع نہیں ہوتا۔
ایک ایسا شخص جسے اس کے موجودہ حالات اور معاشی وسائل نکاح کرنے کی اجازت نہ دیں وہ آج کل کے زمانے میں کیوں کر اپنی زندگی پاک بازی سے بسر کرے؟ میں نے اس کا جواب جس کسی سے بات کی،نفی میں پایا۔ ایک طرف موجودہ ماحول کی زہرناکیاں اور دوسری طرف چشم وگوش کی بھی حفاظت کا مطالبہ، ناممکن العمل معلوم ہوتا ہے۔ کہاں آنکھیں میچیے اور کہاں کانوں میں انگلیاں دیجیے؟ اور پھر یہ کہ برے خیالات کی آمد کو کیوں کر روکیے؟ اوّل تو ہم اپنے خیالات کی آمد ورفت پر کوئی اختیار نہیں رکھتے اور اگر اس کی کوشش بھی کی جائے تو ایک ذہنی خلفشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا جو اور خراب کُن ہے۔سیلف کنٹرول(self control) جن سازگار حالات میں قابل عمل ہو صرف انھی حالات میں کارگر اور مفید ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں جہاں ہر طرف برانگیختگی کے فوج در فوج سامان ہوں ،اپنے آپ سے لڑنا اپنی شخصیت کے لیے ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ایک صاحب جو میڈیکل سائنس میں اس سال ڈاکٹریٹ کی سند لے رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ اس صورت میں نکاح جو حاصل نہیں ہے،اس کے علاوہ نیچرل طریق پر تسکین خاطر حاصل کرنا ہی صرف اس ذہنی انتشار اور تذلیل نفس سے نجات دے سکتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔
کیا آپ بتائیں گے کہ بحالت مجبوری مذکورہ بالا راے پر عمل پیرا ہوجانا کس حد تک گناہ ہے، اور اگر یہ سراسرگناہ ہے تو پھر ان حالات میں صحیح راستہ کیا ہوگا جو معقول اور قابل عمل ہو؟ اُمید ہے کہ آپ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے نفسیات انسانی کے حقائق کی پوری رعایت فرمائیں گے۔