پرہیز گاروں کے ساتھ جاہل معاشرے کا رویہ
ہماری بستی میں ایک صاحب ہیں جو نماز، روزہ، زکاۃ اور دوسرے احکا م اسلامی کے پابند ہیں ،گناہ کبیرہ سے پرہیز کرنے والے ہیں ،مگر ان کا کچھ عجیب حال ہے۔ مثلاً وہ والدین کی خدمت تو سرانجام دیتے ہیں اور ان کے کام میں بھی مدد کرتے ہیں ،مگر ان کی املاک سے کچھ نہیں لیتے، حتیٰ کہ ان کا کھانا تک نہیں کھاتے، محض اس بِنا پر کہ ان کے والد کاروبار کے لیے جھوٹ بولتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے تمام عزیز ورشتہ دار جن کی کمائیوں میں انھیں حرام آمدنی کے شامل ہونے کا شبہہ ہوتا ہے، ان کے ہاں بھی کھانے پینے سے وہ پرہیز کرتے ہیں ۔ رشوت خوروں ، سرکاری ملازموں ،سودی لین دین کرنے والوں اور فرائض منصبی کی انجام دہی میں بددیانتی کرنے والوں سے بھی ان کا یہی معاملہ ہے۔ حد یہ کہ ایک امام مسجد ہیں جن کو ناجائز کمائی کرنے والے بعض اصحاب وظیفہ دیتے ہیں ۔ یہ صاحب ان کے ہاں بھی کھانے یا چائے وغیرہ میں شریک نہیں ہوتے۔ اگر کبھی سفر میں مجبوراً کسی ایسے شخص کے ہاں کھانا کھالینے کی نوبت آئے تو یہ کھانے کی قیمت کا اندازہ کرکے اس سے زیادہ قیمت کا کوئی ہدیہ وہاں روانہ کردیں گے اور اگر کسی ناجائز کمائی کرنے والے کے ہاں مجبوراًکچھ کھا پی لیں گے تو اندازاً اس کا معاوضہ خیراتی فنڈ میں جمع کرکے یہ دُعا کریں گے کہ یا اﷲ اس کا ثواب فلاں کو پہنچے،جس کے ہاں سے میں نے کھایا پیا ہے۔ اس سارے معاملے کی اُس دوسرے شخص کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔
خود ان مسلم متقی صاحب کی آمدنی ایک قطعی جائزتجارت سے ہوتی ہے جس میں یہ کوئی جھوٹ نہیں بولتے۔اس کمائی سے اعزہ اور احباب کو کھانے اور چائے کی دعوت اکثر دیتے رہتے ہیں ۔ اب ان کی اس پرہیز گاری سے ان کے والدین اور دوسرے اعزہ سخت نالاں ہیں ۔ پڑوسیوں میں بھی ایک ہل چل مچ گئی ہے اور بستی میں ان کے خلاف ناراضی پیدا ہورہی ہے۔ مہربانی کرکے ہمیں یہ بتائیے کہ یہ متقی صاحب صحیح راستے پر ہیں یا نہیں ؟اِن کی روش قرآن وحدیث کی حدود کے اندر ہے یا متجاوز؟ اور ان کا یہ تقویٰ ٹھوس اصولی ہے یا فروعی یا مستحب؟کہیں ایسا تو نہیں کہ انھیں ان کے نفس نے فریب دیا ہو؟