اﷲ تعالیٰ کے حقوق ا ور والدین کے حقوق

میں ایک سخت کش مکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔میں جماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دُور رہنے پر مجبور ہوں ۔والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر کاروبار شروع کروں ۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظر انداز کررہے ہو۔میں اس بارے میں ہمیشہ مشوش رہتا ہوں ۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے،دوسری طرف میں محسوس کرتا ہوں کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے میرا جماعت کا کارکن بن کر رہنا ضروری ہے۔ آپ اس معاملے میں مجھے صحیح مشورہ دیں تاکہ میں افراط وتفریط سے بچ سکوں ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف کی ہوگی۔لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں ۔ میرے والد صاحب میری ہر بات کو مورد اعتراض بنالیتے ہیں اور میر ی طرف سے اگر بہت ہی نرمی کے ساتھ جواب عرض کیا جائے تو اسے بھی سننا گوارا نہیں فرماتے۔

اجتہاد کے حدود اور وضو کرنے کی حکمت

میرے ایک جرمن نومسلم دوست ہیں جن سے میرا رابطہِ مراسلت قائم ہے۔وہ مجھ سے اپنے بعض علمی وعملی اشکالات بیان کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ حال ہی میں ان کا ایک خط آیا ہے جس میں انھوں نے دریافت کیا ہے کہ فقہی احکام میں ’’اجتہاد‘‘ کے اصول کے تحت کہاں تک تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بہت سے تفصیلی احکام فقہا کے اخذ کردہ اور مرتب کردہ ہیں اور نبیﷺ کی وفات کے بعد بعض خاص جغرافیائی اور تمدنی حالات کی پیداوار ہیں ۔ کئی صدیوں تک تو اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا تھا مگر اس کے بعد اصولاً ضرورت اجتہاد کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاًاسے بند کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں بالخصوص یورپ کے مسلمانوں کو بعض احکام کی تعمیل میں دشواری پیش آتی ہے ۔مثال کے طور پر وہ وضو کے مسئلے کو لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وضو میں ہر مرتبہ پائوں دھونا اہل یورپ کو مشکل اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ وہاں لوگ ہمیشہ جراب اور بند جوتے استعمال کرتے ہیں ،اس لیے پائوں کے گرد آلود یا ناپاک ہونے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ سردیوں میں پائوں دھونا آسان بھی نہیں ہوتا۔یہی معاملہ منہ دھونے کا ہے۔یورپ کے شہروں میں بالعموم مٹی نہیں اُڑتی اورپسینہ بھی براے نام آتا ہے اس لیے ان کے نزدیک منہ اور پائوں کا دن میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہونا چاہیے۔
آپ براہِ کرم میرے دوست کے خیالات پر صحیح اسلامی نقطۂ نظر سے تنقید کریں اور اس کا جو پہلو اصلاح طلب ہو، واضح فرمائیں ، تاکہ میں انھیں اطمینان بخش جواب دے سکوں ۔

دوسرے فقہی مذاہب پر عمل کا حکم

ہمارے اس زمانے میں مذاہب ِ اربعہ میں سے کسی ایک کی پابندی پہلے سے زیادہ لازمی ہوگئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی صاحب علم وفضل چار معروف مذاہب فقہ کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے یا اجتہاد کرنے کا حق دار ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کس دلیل سے؟اور اگر جائز ہے تو پھر طحطاوی میں ایک بڑے صاحب کما ل فقیہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
اَلْمُنْتَقِلُ مِنْ مَذْھَبٍ إِلٰی مَذْھَبٍ بِإِ جْتِھَادٍ وَبُرْھَانٍ اٰثِمٌ یَسْتَوْجِبُ التَّعزِیْرَ۔ ({ FR 2049 })

مقدمات کا کسی دوسری فقہ پر فیصلہ

اگر حنفی اور شافعی نقطۂ نظر کے درمیان اختلاف ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ حنفیوں کے معاملے میں صرف حنفی نقطۂ نظر ہی قبول کیا جائے؟ اور خاص کر جہاں عدالت اس راے پر پہنچے کہ شافعی نقطۂ نظر زیادہ وزن دار ہے؟

فقہی مسالک کے لیے لفظ ’’مذاہب‘‘ کا استعمال

جنوری کے ترجمان القرآن میں آپ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حنفی فرقہ یا شافعی فرقہ کے لیے حنفی مذہب یا شافعی مذہب کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ میرا مذہبی علم ایک عام مسلمان کا سا ہے جو مذہب کو ان فرقہ بندیوں سے کچھ اوپر تصور کرتے ہیں ۔ کیا ہم سب فرقوں کا مذہب ایک نہیں ہے؟

ملکی قوانین اور پرسنل لا کا مسئلہ

موجودہ آئین میں بنیادی حقوق کے ترمیمی قانون کے ذریعے اضافہ شدہ پرنسپلز آف پالیسیز کے تحت جہاں یہ درج ہے کہ ملک کے قوانین اسلام کے خلاف نہیں ہوں گے وہاں یہ لکھا گیا ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح ہر فرقہ اپنے عقائد کے مطابق خود کرے گا۔ کیا آپ بھی اس کے قائل ہیں ؟

کیا ہمارے ملک میں قانون سازی کے لیے اور پھر عدالتوں کے ذریعے ان قوانین کے نفاذ اور تعبیر و تشریح کے لیے ہر فقہ کے اپنے اپنے علما کو اختیارات دیے جائیں گے؟

تدوین قانون میں اکثریت کے فقہی مسلک کا لحاظ

آپ نے غالباًکہیں لکھا ہے یا کہا ہے کہ ملک میں فقہی مسلک کے لحاظ سے جن لوگوں کی اکثریت ہوگی،قوانین انھی کے فیصلوں کے مطابق بناے جائیں گے اور قلیل گروہ (مثلاًپاکستان میں احناف کے بالمقابل شافعیہ، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ) کے لیے پرسنل لا کی گنجائش رکھی جائے گی۔اگر آپ کا خیال یہی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت اپنے مخصوص مسلک کے آئینہ دار قوانین بنانے کی مجاز ہوگی جو ائمہ مجتہدین کے مجتہدات پر مبنی ہوں گے، یا آپ کی مراد یہ ہے کہ اکثریت سابق مفروضات کے بجاے محض کتاب وسنت کا بے آمیز مطالعہ کرے گی اور جن نتائج پر پہنچے گی انھی کو قانونی جواز حاصل ہو جائے گا؟پہلی صورت میں قوا نین کا ماخذ کتاب وسنت کے بجاے فقہاے کرام کی کتب متداولہ ہوں گی۔لیکن یہ طریق شاید اسلامی حکومت کے مزاج کے منافی ہو۔دوسری صورت میں ان قوانین کا ماخذ کتاب وسنت ہی ٹھیرے گا۔ لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ مخصوص تفقہ کی حامل اکثریت خصوصی ڈگر کو چھوڑ کر کتاب وسنت کا مطالعہ کرے گی اور اس میں موروثی فکر ونظر اور مسلکی عصبیت وحمیت دخیل نہ ہوگی۔اس تشویش کے اظہار سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ فقہاے مجتہدین کے افکار عالیہ سے استفادہ نہ کیا جائے۔صرف چند اُلجھنیں جو ذہن میں پیدا ہوئی ہیں ،اُن کا حل مطلوب ہے۔

صدرِ مملکت کو ویٹو کا حق

کچھ عرصے سے اخبارات کے ذریعے سے تجاویز پیش کی جارہی ہیں کہ صدر پاکستان کو خلیفۃ المسلمین یا امیر المؤمنین کے معزز خطاب سے آراستہ کیا جائے۔اس تصور میں مزید جان ڈالنے کے لیے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر کو حق تنسیخ ملنا چاہیے، کیوں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جلیل القدر صحابہ کے مقابلے میں ویٹو سے کام لیا اور منکرین زکاۃ ومدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے جہاد کا حکم دے کر صحابہ کرامؓ کی راے کو ردّ کردیا۔ گویا اس دلیل سے شرعی حیثیت کے ساتھ ویٹو جیسے دھاندلی آمیز قانون کو مستحکم فرمایا جارہا ہے۔
ان حالات کی روشنی میں جناب والا کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جارہے ہیں ، امید ہے کہ بصراحت جوابات سے مطمئن فرمائیں گے۔
(۱)کیا حضرت ابوبکر ؓنے آج کے معنوں میں ویٹو استعمال فرمایا تھا؟ اور
(۲) اگر استعمال فرمایا تھا تو ان کے پاس کوئی شرعی دلیل تھی یا نہیں ؟

صدرِ مملکت کو سزا کی معافی کا اختیار ہونا

موجودہ قانون میں کورٹ میں اپیل کے بعدبھی اگر قاتل کو پھانسی کی سزا تجویزہوجائے تو پھر صدر حکومت یا گورنرجنرل کے سامنے رحم کی اپیل ہوتی ہے جس میں سزا کے تغیرکا امکان رہتا ہے۔اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صورت کس حد تک جائز ہے؟