اصحاب ِکہف کی مدتِ نوم

اصحاب کہف کے متعلق جب کہ ان کے غار میں سونے کی مدت قرآن میں صریحاًمذکور ہے،آپ نے تاریخ پر اعتماد کرتے ہوئے تفاسیرقدیمہ بلکہ قرآن کے بھی خلاف لکھا ہے۔

رفعِ طور کی کیفیت

وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَکی آپ نے جو تفسیر فرمائی ہے وہ بھی مفسرین کے خلاف ہے، بلکہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میں دوسری جگہ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ کے الفاظ نے آپ کی تفسیر کی واضح تردید کردی ہے۔

دہریّت ومادّہ پرستی اور قرآن

آپ نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں اصطلاحاتِ اربعہ کے جو معانی بیان کیے ہیں ،ان سے جیسا کہ آپ نے خودذکر فرمایا ہے، یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہ تھی جس کی طرف نبی بھیجا گیا ہو اوراس نے اسے خدا کی ہستی کو تسلیم کرنے یا خداکو الٰہ وربّ بمعنی خالق ورازق ماننے کی دعوت دی ہو، کیوں کہ ہرقوم اﷲکے فاطر وخالق ہونے کا اعتقاد رکھتی تھی۔اِ س سے بظاہر یہ شبہہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں منکرینِ خدا یعنی مادّہ پرست ملحدین اور دہریوں کا گروہ ناپید تھا،حالاں کہ بعض آیات سے ان لوگوں کا پتا چلتا ہے۔ مثلاً:
مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝۰ۚ (الجاثیۃ:۲۴)
’’بس ہماری زندگی تو یہی دنیاکی زندگی ہے کہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور یہ زمانہ(یعنی نظمِ فطرت) ہی ہمیں ہلاک کرنے والا ہے۔‘‘
نیز موسیٰ ؑ وفرعون اور نمرود وابراہیم ؑ کے مذاکروں میں بعض آیات اس امر پر صریح الدلالت ہیں کہ یہ دونوں مادّہ پرست دہریہ تھے۔مثلاً:
اَفِي اللہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ( ابراھیم:۱۰)
’’کیا خدا کے وجود میں بھی کوئی شک وشبہہ ہے جو موجدِ ارض وسما ہے؟‘‘
پھر دوسری آیت ہے:
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ (الطور:۳۵)
’’کیا وہ بدون کسی خالق کے آپ سے آپ پیدا ہوگئے یا وہ خود خالق ہیں ؟‘‘
آپ نے دوسری آیات سے استدلا ل کرتے ہوئے ان آیتوں کی جو توجیہہ کی ہے،اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان آیاتِ متمسک بہا کی دوسری توجیہیں ہوسکتی ہیں ۔

قرآن سمجھنے کےلیے مفید لغات

مفردات القرآن( امام راغب) اور اساس البلاغۃ(زمخشری) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟قرآن سمجھنے کے لیے اگر کوئی لغت کی مفید ومستند کتاب معلوم ہو تو مطلع فرمایئے۔

تفسیرِ قرآن کے اختلافات

قرآن پاک کی مختلف تفسیریں کیوں ہیں ؟آں حضور ﷺ نے جو تفسیر بیان کی ہے ،وہ ہوبہو کیوں نہ لکھ لی گئی؟ کیا ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف تفسیریں بیان کریں اور باہمی اختلافات کا ہنگامہ برپا رہے؟

منسوخ احکام پر عمل

ترجمان اکتوبر نومبر ۱۹۵۵ئ میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ احکام منسوخہ پر اب بھی عمل جائز ہے، اگر معاشرے کو انھی ضروریات سے سابقہ ہوجائے۔ اگر احکام شارع نے منسوخ فرمائے ہیں تو پھر ان احکام کو مشروع کرنے والا کون سا شارع ہوگا؟اگرہر ذی علم کو اس ترمیم وتنسیخ کا حق دیا جائے جب کہ إعْجَابُ کُلُّ ذِیْ رَأیٍ بِرَأیِہِ ({ FR 2231 })کا دور دورہ ہے تو کیا یہ تَلاعُب بِالدِّیْنِ (دین کے ساتھ کھیلنا) نہ ہوگا؟ آیا احکام منسوخہ میں تعمیم ہے یا تخصیص؟محرمات اب پھر حلا ل ہوسکتے ہیں یا حلا ل شدہ احکام اب پھر منسوخ ہوسکتے ہیں ؟ مہربانی فرما کر وسعت سے بحث فرماویں ، کیوں کہ یہ بنیادی اُمور سے متعلق ہے۔

حدیث کا قرآن کومنسوخ کرنا

اُصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حدیث قرآن کو منسوخ کرسکتی ہے۔کیا یہ نظریہ ائمہِ فقہا سے ثابت ہے؟اگر ہے تو اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

قرآن کی تأویل کا صحیح طریقہ

اسلام کو سمجھنے کی کوشش میں جس مسئلے کو میں نے سب سے زیادہ پریشان کن پایا،وہ قرآن کی تأویل وتعبیر کا مسئلہ ہے۔گزارش ہے کہ اس معاملے میں میرے ذہن کی اُلجھن کو دُور کیا جائے تاکہ تأویل قرآن کے اُصولوں کو جاننے کے ساتھ یہ بھی معلوم کرسکوں کہ مخصوص مسائل پر ان اُصولوں کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے۔