قرآن شریف کا مطالعہ کرتے وقت بعض ایسے قوی شبہات وشکوک طبیعت میں پیداہوجاتے ہیں جو ذہن کو کافی پریشان کردیتے ہیں ۔ ایک تو نقص ایمان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں قرآن کی آیات پر نکتہ چینی واعتراض کرنے سے ایمان میں خلل نہ واقع ہوجائے،لیکن آیت کا صحیح مفہوم ومطلب نہ سمجھ میں آنے کے باعث شک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔میں ان آیات کا مطلب سمجھنے کے لیے اُردو و عربی تفاسیر کا بغور مطالعہ کرتا ہوں لیکن طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور اضطراب دور نہیں ہوتا تو پھر گاہ بگاہ جناب کی طرف رجوع کرلیتا ہوں ،مگر آپ کبھی مختصر جواب دے کر ٹال دیتے ہیں ۔البتہ آپ کے مختصر جوابات بعض اوقات تسلی بخش ہوتے ہیں ۔آج صبح کو میں حسب دستور تفسیر کا مطالعہ کررہا تھا،سورۂ یٰسٓ زیر مطالعہ تھی کہ مندرجہ ذیل آیت پر میں ٹھیر گیا:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ (یٰس:۶)
’’ تاکہ تم ڈرائو ان لوگوں کو جن کے آبا و اجداد نہیں ڈراے گئے تھے، پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس کی تفسیر میں یہ الفاظ تحریر تھے:
لِاَ نَّ قُرَیْشًا لَمْ یَأتِھِمْ نَبِیٌّ قَبْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ({ FR 2242 })
’’کیونکہ قریش کی طرف محمد ﷺسے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔‘‘
دریافت طلب امر یہ ہے کہ قبل از بعثت محمدؐ جب کہ سرزمین عرب میں کوئی نبی ورسول مبعوث نہیں ہوا تو پھر کیا یہ لوگ اصحاب الجنۃ ہوں گے یا اصحاب النار یا اصحاب اعراف میں سے ہوں گے؟ اسی مضمون کی کچھ اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن قوموں پر اتمام حجت نہیں ہوا،وہ بری الذمہ ہونی چاہییں ،البتہ وہ لوگ جن کے کانوں تک پیغمبر اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو،پھر وہ ایمان سے منہ موڑیں ،تو یہ لوگ واقعی معتوب ہونے چاہییں ۔ ایک دوسری آیت اسی مقصد کی تائید کرتی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ( بنی اسرائیل:۱۵)
’’ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘