خنزیر اور دیگرحرام اشیاکی حرمت کی وجہ

قرآن نے چند چیزیں حرام کیوں قرار دی ہیں ؟طبی نقطۂ نگاہ سے یا کسی اور وجہ سے؟ ان میں کیا نقصانات ہیں ؟خنزیر کو خاص طور پر نام لے کر کیوں شدت سے حرام قرار دیا گیا ہے؟کیا یہ سب سے زیادہ مضر حیوان ہے؟چیر نے پھاڑنے والے جانور اور خون وغیرہ کیوں حرام قرار دیے گئے ہیں ؟

جن قوموں میں انبیا ؊ مبعوث نہیں ہوئے ،اُن کا معاملہ

قرآن شریف کا مطالعہ کرتے وقت بعض ایسے قوی شبہات وشکوک طبیعت میں پیداہوجاتے ہیں جو ذہن کو کافی پریشان کردیتے ہیں ۔ ایک تو نقص ایمان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں قرآن کی آیات پر نکتہ چینی واعتراض کرنے سے ایمان میں خلل نہ واقع ہوجائے،لیکن آیت کا صحیح مفہوم ومطلب نہ سمجھ میں آنے کے باعث شک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔میں ان آیات کا مطلب سمجھنے کے لیے اُردو و عربی تفاسیر کا بغور مطالعہ کرتا ہوں لیکن طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور اضطراب دور نہیں ہوتا تو پھر گاہ بگاہ جناب کی طرف رجوع کرلیتا ہوں ،مگر آپ کبھی مختصر جواب دے کر ٹال دیتے ہیں ۔البتہ آپ کے مختصر جوابات بعض اوقات تسلی بخش ہوتے ہیں ۔آج صبح کو میں حسب دستور تفسیر کا مطالعہ کررہا تھا،سورۂ یٰسٓ زیر مطالعہ تھی کہ مندرجہ ذیل آیت پر میں ٹھیر گیا:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ (یٰس:۶)
’’ تاکہ تم ڈرائو ان لوگوں کو جن کے آبا و اجداد نہیں ڈراے گئے تھے، پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس کی تفسیر میں یہ الفاظ تحریر تھے:
لِاَ نَّ قُرَیْشًا لَمْ یَأتِھِمْ نَبِیٌّ قَبْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ({ FR 2242 })
’’کیونکہ قریش کی طرف محمد ﷺسے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔‘‘
دریافت طلب امر یہ ہے کہ قبل از بعثت محمدؐ جب کہ سرزمین عرب میں کوئی نبی ورسول مبعوث نہیں ہوا تو پھر کیا یہ لوگ اصحاب الجنۃ ہوں گے یا اصحاب النار یا اصحاب اعراف میں سے ہوں گے؟ اسی مضمون کی کچھ اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن قوموں پر اتمام حجت نہیں ہوا،وہ بری الذمہ ہونی چاہییں ،البتہ وہ لوگ جن کے کانوں تک پیغمبر اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو،پھر وہ ایمان سے منہ موڑیں ،تو یہ لوگ واقعی معتوب ہونے چاہییں ۔ ایک دوسری آیت اسی مقصد کی تائید کرتی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ( بنی اسرائیل:۱۵)
’’ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘

یہود کی ذلت ومسکنت

میرے ذہن میں د و سوال بار بار اُٹھتے ہیں ۔ایک یہ کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ ({ FR 2243 }) (البقرہ:۶۱) جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت ومسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں ۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار وتسلط کو دیکھ کر ذلت ومسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔

اصحاب ِکہف کی مدتِ نوم

اصحاب کہف کے متعلق جب کہ ان کے غار میں سونے کی مدت قرآن میں صریحاًمذکور ہے،آپ نے تاریخ پر اعتماد کرتے ہوئے تفاسیرقدیمہ بلکہ قرآن کے بھی خلاف لکھا ہے۔

رفعِ طور کی کیفیت

وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَکی آپ نے جو تفسیر فرمائی ہے وہ بھی مفسرین کے خلاف ہے، بلکہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میں دوسری جگہ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ کے الفاظ نے آپ کی تفسیر کی واضح تردید کردی ہے۔

دہریّت ومادّہ پرستی اور قرآن

آپ نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں اصطلاحاتِ اربعہ کے جو معانی بیان کیے ہیں ،ان سے جیسا کہ آپ نے خودذکر فرمایا ہے، یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہ تھی جس کی طرف نبی بھیجا گیا ہو اوراس نے اسے خدا کی ہستی کو تسلیم کرنے یا خداکو الٰہ وربّ بمعنی خالق ورازق ماننے کی دعوت دی ہو، کیوں کہ ہرقوم اﷲکے فاطر وخالق ہونے کا اعتقاد رکھتی تھی۔اِ س سے بظاہر یہ شبہہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں منکرینِ خدا یعنی مادّہ پرست ملحدین اور دہریوں کا گروہ ناپید تھا،حالاں کہ بعض آیات سے ان لوگوں کا پتا چلتا ہے۔ مثلاً:
مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝۰ۚ (الجاثیۃ:۲۴)
’’بس ہماری زندگی تو یہی دنیاکی زندگی ہے کہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور یہ زمانہ(یعنی نظمِ فطرت) ہی ہمیں ہلاک کرنے والا ہے۔‘‘
نیز موسیٰ ؑ وفرعون اور نمرود وابراہیم ؑ کے مذاکروں میں بعض آیات اس امر پر صریح الدلالت ہیں کہ یہ دونوں مادّہ پرست دہریہ تھے۔مثلاً:
اَفِي اللہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ( ابراھیم:۱۰)
’’کیا خدا کے وجود میں بھی کوئی شک وشبہہ ہے جو موجدِ ارض وسما ہے؟‘‘
پھر دوسری آیت ہے:
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ (الطور:۳۵)
’’کیا وہ بدون کسی خالق کے آپ سے آپ پیدا ہوگئے یا وہ خود خالق ہیں ؟‘‘
آپ نے دوسری آیات سے استدلا ل کرتے ہوئے ان آیتوں کی جو توجیہہ کی ہے،اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان آیاتِ متمسک بہا کی دوسری توجیہیں ہوسکتی ہیں ۔

قرآن سمجھنے کےلیے مفید لغات

مفردات القرآن( امام راغب) اور اساس البلاغۃ(زمخشری) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟قرآن سمجھنے کے لیے اگر کوئی لغت کی مفید ومستند کتاب معلوم ہو تو مطلع فرمایئے۔

تفسیرِ قرآن کے اختلافات

قرآن پاک کی مختلف تفسیریں کیوں ہیں ؟آں حضور ﷺ نے جو تفسیر بیان کی ہے ،وہ ہوبہو کیوں نہ لکھ لی گئی؟ کیا ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف تفسیریں بیان کریں اور باہمی اختلافات کا ہنگامہ برپا رہے؟