اقامتِ دین کے لیے اُمید اوراعتماد

رسول اﷲ ﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں جن جلیل القدر صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئیں ،ان کے بارے میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ نوع انسانیت کے گل سرسبد تھے۔لیکن اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلافت راشدہ کانظام جلد درہم برہم ہوگیا اور جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے حادثات رونما ہوئے، جن کا اسلامی تحریک کے ارتقا پر ناخوش گوار اثر پڑا۔ نبی کریم ﷺ کے اتنے قریبی زمانے میں اور عہد نبوی میں تربیت یافتہ صحابہ کی موجودگی میں اگر مسلم سوسائٹی میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے تو آج ہم لوگ جو ان سلف صالحین کی بلندیوں کے تصور سے بھی عاجز ہیں ، کس چیز پر فخر کرسکتے ہیں اور کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم ایک مکمل اسلامی ریاست قائم کرسکیں گے؟

ایک عرصے سے ایک اُلجھن میں مبتلا ہوں ۔ براہِ کرم اس سلسلے میں راہ نمائی فرمائیں ۔ الجھن یہ ہے کہ عہد نبویؐ و خلافت راشدہ کو چھوڑ کر آج کی تاریخ تک مسلمانوں کا وہ گروہ ہمیشہ ناکام کیوں ہوتا چلا آ رہا ہے جس نے دین و ایمان کے تقاضے ٹھیک ٹھیک پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناکامی کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا سبب زیادہ تر اپنے ہی دینی بھائی بنتے رہے اور آج بھی بنے ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ’’دین‘‘ جو دنیاوی زندگی کو درست کرنے کے لیے نازل ہوا ہے، جس کا سارے کا سارا ضابطہ دنیوی زندگی میں عمل کرنے کے لیے ہے، جسے غالب کرنے کے لیے کئی خدا کے بندے اپنی زندگیاں ختم اور کئی وقف کر چکے ہیں ، غالب کیوں نہ آسکا؟ اور دنیا کی غالب آبادی ’’دین اسلام‘‘ کی برکتوں سے عام طور پر کیوں محروم رہی ہے؟ خلق خدا کی عظیم الشان اکثریت چند مٹھی بھر زبردستوں کے ظلم و ستم کیوں سہتی چلی آ رہی ہے؟ معاشی بے انصافی، تنگ دستی اور اذیتوں کی درد ناک صورتوں سے کیوں دو چار ہے؟ اور امن و سلامتی قائم کرنے والا دین حق اور اس کے نام لیوا کمزوروں ، بے بسوں ، مجبوروں اور معذوروں کا سہارا بننے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟

مذہب کا پروگرام اگر انسانی فطرت کے لیے کشش رکھتا تھا تو متقی لوگوں نے کسی بھی ملک وقوم میں بہتر سوسائٹی بنانے میں کیوں کام یابی حاصل نہیں کی۔اگر انسانیت کی پوری تاریخ میں بھی مذہب کام یاب نہیں ہوسکا تو آج کیوں کر اس سے امن وترقی کی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں ۔ یہ کہہ دینا کہ انسانی فطرت ہی میں خرابی مضمر تھی، مفید نہیں ہو سکتا۔ مذاہب حق کو زندہ کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے کام کرتے رہے مگر نتیجہ تھوڑے تھوڑے وقفے کو چھوڑکر ہمیشہ الٹا ہی نکلا اور تاریخ کے سیلاب کا رخ نہ بدلا،یا بالفاظ دیگر شیطان کی طاقت شکست نہ کھا سکی؟

اقامتِ دین کے لیے جرأتِ عمل

اگر ہمارے پیش رو لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو ہمارا دامن کیسے پاک رہ سکتا ہے اور اقامت دین کے لیے ہم میں جرأت عمل کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟

میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہے جو عالم دین ہیں ، جماعت کی دعوت اور طریق کار کو عین حق سمجھتے ہیں اور جماعت سے باقاعدہ متفق ہیں اس کے باوجود نظم جماعت کی پابندی اور اطاعت امیر کا جب ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ایسی مختلف تنظیمیں جو مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں دین کا کام کرنے کے لیے قائم ہوں ،ان کے نظم کی پابندی ا ور ان کے اولی الامر کی اطاعت فرض نہیں ہے۔اطاعت تو رسول اﷲ ﷺ اور خلفاے راشدین کی فرض تھی نہ کہ ایسی جماعتوں کے امرا کی جو وقتاًفوقتاً مختلف ملکوں میں دین کا کام کرنے کے لیے تشکیل پاتی رہیں ۔ گویا کہ اب کوئی اور کام کرنے کا رہا نہیں ہے۔حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اگر اس دور میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوجائے تو اس کے امیر کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہوگی جیسے خلفاے راشدین کے دور میں تھی۔
ایک عالم دین کی زبان سے یہ باتیں سن کر میں سکتے میں رہ جاتا ہوں ۔میں نے اپنے ناقص علم کی حد تک انھیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کا اوّل اور آخر جملہ یہی ہے کہ یہ باتیں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ یا نفل کا درجہ رکھتی ہیں ۔یہ وہ انداز فکر ہے جو تحریک اسلامی کے نشو ونما کے لیے سم قاتل ہے۔اس کا کسی ایسے نوجوان کے کانوں میں پڑ جانا جس نے ابھی اس راہ میں قدم رکھا ہی ہو،اس کے قواے عمل کو مفلوج کردینے کے لیے کافی ہے۔پس اس لیے نہیں کہ ان صاحب کو مطمئن کرنا ہے،بلکہ اس لیے کہ اس کے اثرات دوسروں پر متعدی ہوسکتے ہیں ،ان غلط خیالات کی تردید بہت ضروری معلوم ہوتی ہے۔یوں تو جماعت کا تمام لٹریچر ان کاجواب پیش کرتا ہے، لیکن غالباً کسی ایک جگہ اس کا مختصر او رمدلل جواب موجود نہیں ہے۔
ان صاحب کا ذہن فقہی اصطلاحات میں اس طرح الجھا ہوا ہے کہ جماعت کے لٹریچر کے سارے دلائل انھیں بے وزن معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت کی کتابوں میں دلائل نہیں ہوتے۔ پہلے تو میں ان کے اس جملے کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔کیوں کہ جماعت کے لٹریچر کا دلائل سے مسلح ہونا ہی تو وہ وصف ہے جس کا لوہا مخالفین بھی مانتے ہیں ۔اس لیے جب ان سے وضاحت چاہی گئی تو کہنے لگے کہ اس میں فقہ حنفی یا دیگر مکاتب فقہ کی کتابوں کاحوالہ نہیں ہوتا۔قرآن وسنت سے محض اپنے ہی نقطۂ نظر سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو کا لُب لُباب یہ ہے کہ اگر فقہ حنفی کی کسی کتاب میں یہ دکھا دیا جائے کہ اقامت دین اور اس کے لیے ایک جماعت کا قیام اور پھر اس کے نظم سے وابستگی اور اس کے امیر کی اطاعت فرض عین ہے،تب تو وہ مانیں گے،ورنہ وہ اس کے لیے تیار ہیں کہ اگر جماعت کے اجتماعات میں شرکت پر ان سے اصرار کیا جائے اور ہفتہ وار رپورٹ طلب کی جائے تو وہ ’’متفقیت‘‘ سے بھی مستعفی ہوجائیں گے۔ اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر جواب میں فقہ حنفی کی کتابوں کا حوالہ بھی ممکن ہو تو دیا جائے، شاید کہ ان کے دل کی گرہیں کھل جائیں ۔
ایک اور بزرگ ہیں جو پہلے تو جماعت سے اس حد تک تعلق رکھتے تھے کہ رکنیت کی درخواست دینے والے تھے لیکن یکایک ان کے ذہن رسا میں ایک نکتہ پیدا ہوا اور وہ اپنا دامن جھاڑ کر جماعت سے اتنی دُور جاکھڑے ہوئے گویا انھیں جماعت سے کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی دستور کی تشکیل کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکا ہے اور یہاں تمام مسلمان شہری ایک نظام اطاعت میں منسلک ہوچکے ہیں ۔یہ نظام اطاعت سب کو جامع اور سب پر فائق ہے۔اب سب کی اطاعتیں اس بڑے نظام اطاعت کے گرد جمع ہوچکی ہیں ۔لہٰذا اس کی موجودگی میں کسی اور نظم کا قائم ہونا اور افراد سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک حکومت کے اندر ایک متوازی حکومت کا قائم کرنا۔خلاصہ یہ کہ اب کسی جماعت، کسی تنظیم اور کسی امیر کی ضرورت نہیں ہے۔پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ،حکومت اس کا تنظیمی مظہر ہے، تمام مسلمان شہری اب کسی جماعت کے نہیں بلکہ اس ریاست کی ہمہ گیر تنظیم کے رکن ہیں ، اور ان کی تمام اطاعتیں اور وفاداریاں اسی تنظیم کاحق ہیں نہ کہ کسی اور جماعت کا۔ اب اطاعت کسی کی نہیں بلکہ ریاست کے صدر کی ہونی چاہیے۔ یہ وہ طرزاستدلال ہے کہ اس کے نتیجے میں شہریوں کا حق انجمن سازی (right to form association) ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اور نہ صرف ختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کا ذکر کرنا بھی حکومت کے خلاف بغاو ت کرنے کے مترادف ہے۔آپ کے پاس اس استدلال کا کیا جواب ہے؟کیا اسلامی ریاست واقعی ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں کسی دوسری پارٹی کو جنم لینے اور جینے کا موقع نہیں ملے گا؟اگر ملے گا تو ایک نظام اطاعت کے لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہوگی؟کیا اب کسی مسلمان کا یہ استدلال درست ہے کہ اب اسے اسلام کے اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کسی جماعت میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا ایک شہری ہے۔علمی حیثیت سے یہ سوالات خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا جواب علمی طریق پر ہی دیا جانا چاہیے۔

اقامت ِدین اور تزکیہ کا معیار

اقامت دین کی دعوت جس فکر اور جس انداز میں اﷲ نے آپ کو پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے،اس سے کوئی صاحب ایمان جو سمع وبصر اورشعور کی دولت سے بہرہ ور ہو،اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس اسلوب میں حاضر کے تقاضوں کا پورا لحاظ اور اس دعوت کے مزاج کی حقیقی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اور احقاق حق کے لیے یہی دو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔لیکن اس کام سے تمام وکمال اتفاق کے باوجود ذہن میں یہ سوال بار بار اُبھرتا ہے کہ دین کو برپا کرنے کے لیے جس صحبت کامل،جس سیرت سازی اور جس نظر کیمیا کے اعلیٰ اوصاف رسول ﷺ میں موجود تھے،وہ کوئی پھر کہاں سے لاسکتا ہے۔حضور ﷺ کی عظیم ترین شخصیت،پھر الہام ووحی سے ہرہر گام پر راہ نمائی، پھر استفادہ واستفاضہ کرنے والے قلوب کی غایت توجہ و اشتیاق نے جماعت صحابہ کے ایک ایک فرد میں یقین کی وہ آگ اور خلوص کا وہ لا زوال جذبہ پیدا کردیا تھا کہ ان کی زندگی کے ہر ہر جز سے ان کی دعوت اور ان کے مقصد کا عشق ٹپکا پڑتا تھا۔آج جب کہ نہ وہ پاکیزہ صحبت،نہ وہ بے خطا قیادت، اور نہ مخاطبین میں وہ اہلیت وکیفیت اور اس پر آج کے شور و فتن کا فکر و ذہن پر استیلاے تام….. ایسی حالت میں مخلص مجاہدین کی وہ جماعت برپا ہوسکے گی؟ اس کا تصور بھی دشوار ہے۔
اس کام کی فرضیت سے مجھے انکار نہیں ۔ اسی احساس کی بنا پر اسے کر بھی رہا ہوں ۔لیکن کیا اس کے نتائج بھی اسی طرح کے ہوں گے؟یہ بات میرے لیے بڑی تشویش کی موجب بن جاتی ہے۔سوچتا ہوں کہ اس کے لیے ویسے ظروف واحوال والی شخصیتیں کہاں ہیں ؟ویسی قیادت کے اوصاف کسی میں ، نہ ویسی اطاعت کی صلاحیتیں ۔ اقامت دین کا کام کرنے والوں سے کچھ وعدے تو ضرور ہیں مگر ان کا بھی ایک معیار مقرر ہے۔ ایک خاص درجے کا ایمان وایقان اور خلوص۔ اپنے مقصد سے عشق اور اس کی تربیت کے لیے ویسی ہی ایک صحبت بھی درکار ہے۔اگر یہ سب چیزیں مہیا نہ ہوئیں تو چاہے قرآن کے سیاسی نظریے پر ایک گروہ منظم ہوجائے مگر اسلام کی وہ اخلاقی اور روحانی اسپرٹ رکھنے والا گروہ پیدا نہ ہوسکے گا جو اس کے نظام حیات کی صحیح نمائندگی کرسکتا ہو اور جس کے لیے نصرت اور تمکن کے وعدوں کے ساتھ خیر اُمۃ اور خلفاء اﷲ فی الارض کے خطابات استعمال کیے گئے ہیں ۔
چنانچہ تحریک اسلامی کا کام اگرچہ جاری ہے اور اس کے افراد میں بہت کچھ تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں ، مگر جس ایمان کامل کی گرمی، جس زندہ یقین کے مظاہر اور جس خلوص مقصد کی تاثیر صحابہؓ میں ایمان لانے کے بعد ہی محسوس ہونے لگتی تھی وہ مجھے اپنے یہاں بلحاظ مراتب اور ایک مدت کے بعد بھی دکھائی نہیں دیتی،اِلاّ ماشاء اﷲ۔ اس کی وجہ صحیح تربیت اور پاکیزہ صحبت کی کمی ہے یا اس کام کے معیار کے مطابق ویسے مربی اور مز کی نفوس عالیہ کا فقدان۔ بہرحال جو بھی وجہ ہو،مذکورہ اشکال یا اشتباہ کو اس سے تقویت ہوتی ہے۔
ایک دوسری بات میرے لیے باعث خلجان یہ بھی ہے کہ اس دور کی ایک دوسری دینی تحریک، جو اتفاق سے اس دور کا نظرو فکر ساتھ نہیں رکھتی،بعض ایسے افراد کو ضرور سامنے لائی ہے جن سے قلب کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہوتا ہے۔یہ اُلجھن میرے لیے حل طلب ہے کہ جو کام ٹھیک ٹھیک معیار پر جاری ہے،اس میں تو وہ روح نہیں اُبھری اور ایک محدود سی تحریک میں اس کے کچھ آثار نظر آتے ہیں ۔
ممکن ہے یہ کمی ذکر اﷲ کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو،جس ذکر کی تلقین احادیث میں آئی ہے۔تاہم اس کا کوئی قابل اطمینان حل تلاش نہیں کرسکا۔ اس لیے جناب کو تکلیف دے رہا ہوں ۔دل میں اس دعوت کا یقین کیسے پیدا ہو اور اس پر ایمان کیسے زندہ ہو؟اس کی تدبیر اب تک سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر مذکورہ اُمور کی کوئی اہمیت جناب محسوس فرمائیں تو تفصیل کے ساتھ جواب رقم فرمائیں ۔

اقامتِ دین کے مراحل

ایک اُلجھن اقامت ِدین کی راہ کے نشانات او رمراحل کے متعلق پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح کے مراحل دیے گئے ہیں ،ان میں جس طرح کی راہ نمائی ہوتی گئی اور جس طرح کی غیبی نصرت وتائید کا ظہور ہوتا گیا،ان سب میں ذاتِ رسولؐ اور وحی کی راہ نمائی موجود تھی۔ اب یہ کون بتائے گا کہ ہمارے راستے کے مراحل کون کون سے ہیں اور ان کو کس کس طرح عبور کرنا ہے؟

اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام

میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں اور آج کل نائیجیریا میں بحیثیت سائنس ٹیچر کام کر رہا ہوں ۔ جب میں ہندستان سے یہاں آرہا تھا ،اس وقت خیال تھا کہ میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں جارہا ہوں ،اس لیے شرعی احکام کی پابندی میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔لیکن یہاں آکر دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔جس علاقے میں میرا قیام ہے، یہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں عیسائی مشنریز خوب کام کررہے ہیں ۔بہت سے اسکول اور ہسپتال ان کے ذریعے سے چل رہے ہیں ۔مسلمان یہاں پانچ فی صدی سے زیادہ نہیں ہیں اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔انگریزی نہیں بول سکتے حالاں کہ ہر ایک عیسائی تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی بہت مانگ ہے۔یہاں پر بہت سے غیر ملکی ٹیچر اور سوداگر کام کررہے ہیں ۔ان میں زیادہ تر عیسائی اور ہندو ہیں ۔ میں اپنی طرز کا اکیلا ہوں ۔ میرے شہر میں صرف تین بہت چھوٹی مسجدیں ہیں ۔وہ بہت ہی شکستہ حالت میں ہیں ۔ اس کے علاوہ دُور دُور کہیں اذان کی آوازبھی نہیں آتی۔یہ ملک اکتوبر میں آزاد ہونے والا ہے۔ مجموعی حیثیت سے پورے ملک میں مسلم اکثریت ہے ۔لیکن اس کے باوجود مسلم کلچر کے مقابلے میں مغربی اور عیسائی کلچر یہاں بہت نمایاں ہے۔ شراب کا استعمال شاید مغربی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔لیکن ان سب کے باوجود دو باتیں یہا ں خاص طور پر دیکھنے میں آئیں ۔ ایک انسانی رواداری۔اس معاملے میں یہ لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ۔غیر ملکی کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔دوسری چیز یہ ہے کہ جو مسلمان یہاں ہیں ،ان کے اوپر مغربی طرز فکر کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ ہمارے ہاں ہے۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ اب تک مغربی تعلیم کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں ۔
ان حالات میں آپ مشورہ دیجیے کہ کس طرح اسلام کی صحیح نمائندگی کی جائے اور یہاں کے لوگوں کو انگریزی میں کون سا لٹریچر دیا جائے۔پڑھا لکھا طبقہ انگریزی لٹریچر سمجھ سکتا ہے۔’’پردہ‘‘ کی طرح اگر کوئی کتاب شراب نوشی پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے لکھی گئی ہو تو اس سے بھی مطلع فرمایے!
دوسرے یہ بھی آپ سے مشورہ چاہتا ہوں کہ ایسے حالات میں کس طرح انسان صحیح راہ پر قائم رہے جب کہ ماحول اور سوسائٹی دوسرے رنگ میں رنگے ہوں ۔

کچھ عرصے سے امریکا میں آکر مقیم ہوں ۔ یہاں کے لوگوں سے دینی و اجتماعی موضوعات پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اللّٰہ نے جتنی کچھ سمجھ بوجھ دی ہے اور آپ کی تصانیف اور دوسرے مذہبی لٹریچر سے دین کا جتنا کچھ فہم و شعور پیدا ہوا ہے، اس کے مطابق اسلام کی ترجمانی کی کوشش کرتا ہوں ۔ مگر یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بظاہر مادی آسائشوں پر مطمئن ہیں اور انھی سے مزید اطمینان حاصل کرنے میں کوشاں ہیں ۔ ان لوگوں کے مسائل اور دل چسپی کے موضوع ہمارے موضوعات سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ ان لوگوں کی گمراہیوں کی نوعیت و کیفیت بھی اپنے ہاں کی گمراہیوں سے الگ اور شدید تر ہے۔ جس طرزِ استدلال سے ہم مسلمان معاشرے کے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ راست کی طرف بلا سکتے ہیں اور انھیں اسلام کے اصولوں کا قائل بنا سکتے ہیں ، وہ طرزِ استدلال یہاں شاید کارگر نہ ہو۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ یہاں کے ماحول اور ذہنیت کو سامنے رکھ کر تبلیغ و تلقین کا اصول اور طریق کار واضح کریں اور مجھے سمجھائیں کہ یہاں لوگوں کو ان کے فکر و عمل کی گمراہی اور ضرر رسانی کا احساس کس طرح دلایا جاسکتا ہے اور انھیں آمادہ اصلاح کرنے کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں ۔ یہاں کسی بڑی تعداد کو اسلام کی جانب مائل کرنا اوردائرہ اسلام میں داخل کرنا تو مشکل نظر آتا ہے بس یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آغاز کار میں کیا طریقہ اختیار کرنا مناسب ہوگا۔

ہمارے اسلامی حلقوں میں آج کل یہ موضوع زیر بحث ہے کہ جس ملک میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر تسلط حاصل ہو، وہاں تحریک اسلامی کے کارکنوں کو مسلمانوں کے قومی معاملات میں کس حد تک دل چسپی لینی چاہیے۔ جو لوگ ان مسائل میں حصہ لینےکے حامی ہیں وہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ کی ان مساعی کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے بچا کرلے جانے کے لیے انھوں نے اختیار فرمائیں ۔ اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ یہ اندیشہ رکھتے ہیں کہ ان معاملات میں الجھ جانے کے بعد تحریک اسلامی کا اصولی موقف مجروح ہو جائے گا اور اس کی بین الاقوامی اور بین الانسانی دعوت اپنا اپیل کھو بیٹھے گی۔ فریق اول کے استدلال کا اہم اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو اللّٰہ نے بعثت محمدی سے قبل اقوام عالم میں منتخب اور افضل تر قرار دیا تھا، اسی طرح دنیا اور دنیا کے جس ملک میں بھی مسلمان نام کی ایک قوم آباد ہے، وہ بھی برگزیدہ اور مجتبیٰ ہے۔ اس لیے اس قوم کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اس کے پرسنل لا اور تعلیمی و تہذیبی ادارات کا بقا اقامت دین کے لیے ناگزیر اور اولین توجہ کا مستحق ہے۔
دوسرے لفظوں میں جب نبوت بین الاقوامی دور میں داخل ہوئی اور ایک سے زائد اقوام کے لیے ایک ہی نبی مبعوث ہونے لگے تو جس طرح ایک قوم کے اندر ایک فرد کو منتخب کرکے نبوت سے سرفراز کیا جاتا تھا، اسی طرح اقوام عالم میں سے بھی ایک قوم کو چن کر کارِ نبوت کی انجام دہی پر مامور کیا گیا۔ چنانچہ فرعون کو دعوتِ ایمان دینا حضرت موسٰی کے مشن کا جز صرف اسی حد تک تھا جس حد تک بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ آپ سے استدعا ہے کہ ایک غیر مسلم اقتدار کے دائرے میں آپ اقامتِ دین کا طریق کار واضح کریں اور بتائیں کہ حضرت موسیٰ ؈ کی دعوت کا جو تعلق بنی اسرائیل اور قوم فرعون سے تھا، اس کی صحیح نوعیت آپ کے نزدیک کیا تھی اور بنی اسرائیل کے قومی مسائل پر انھوں نے خصوصی توجہ کیوں مبذول فرمائی؟