اقامت ِدین کے بارے میں ایک سوال

’’سورۂ شوریٰ کی آیت اَنْ اَقِیْمُواالدِّیْنَ سے اقامت دین کی فرضیت واضح ہوتی ہے۔ لیکن ایک عالم دین نے اپنی تحریر میں اس طرح گرفت کی ہے کہ اگر یہ مقصد ہوتاتو اسے قرآن میں باربار دہرایا جانا چاہیے تھا۔‘‘

جواب

جواب سے پہلے آپ کو یہ مشورہ دیتاہوں کہ آپ پورا قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیں۔ اس سے آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کریم میں کتنے احکام باربار دہرائے گئےہیں اور کتنے احکام ایسے ہیں جو دہرائے نہیں گئے ہیں۔ عالم دین صاحب نے جو گرفت کی ہے اس کے دو جوابات ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن میں جس چیز کو ایک بار حکم دے کر فرض قراردیاگیا ہے وہ بھی اسی درجے کا فرض ہے جس درجے کا وہ فرض جس کا حکم دہرایا گیا ہے۔ دیکھیے ماہ رمضان المبارک کے روزے کا حکم قرآن میں صرف ایک بار دیا گیا ہے۔اس کو دہرایا نہیں گیا ہے۔ اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ دین اسلام کے چارعملی ارکان میں ایک روزہ بھی ہے۔اب یہ معلوم نہیں کہ ان عالم دین صاحب کے نزدیک یا تو رمضان کے روزے فرض نہیں ہیں یا یہ کہ ان کی فرضیت کم درجے کی ہے۔ اگر ان عالم دین صاحب سے آپ یہ پوچھ سکتے ہوں تو ضروردریافت کریں۔ اس کے علاوہ میراث تقسیم کرنے کا حکم بھی ایک ہی باردیاگیا ہے۔ پتانہیں ان عالم صاحب کے نزدیک قرآنی حکم کے مطابق میراث تقسیم کرنے کی حیثیت کیا ہے؟ اس کے بارے میں بھی ان سے پوچھیے۔
عالم صاحب کی گرفت کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’دین قائم کرو‘‘ کا حکم ایک بار نہیں بیسیوں بار قرآن میں دیا گیا ہے، بلکہ پوری پوری سورتیں اسی مقصد سے نازل کی گئی ہیں۔ سورۂ انفال،سورۂ توبہ، سورۂ حدید، سورۂ صف۔ ان تمام سورتوں میں جہاد فی سبیل اللہ کے احکام وترغیبات کامقصد اس کے سوااور کیا ہے کہ اللہ کا دین قائم ہو؟ سورۂ بقرہ آیت ۱۹۳ میں حکم دیاگیا ہے
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۝۰ۭ
’’تم ان سے لڑویہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔‘‘
اس آیت میں قتال کاصرف حکم نہیں دیاگیا ہے بلکہ اس حکم کی غرض وغایت بھی بتادی گئی ہے۔ اوروہ یہ ہےکہ زمین پر اللہ کا دین قائم ہوجائے۔’’دین اللہ کے لیے ہوجائے‘‘ کامطلب اس کے سوااور کیا ہوسکتا ہے؟یہی حکم ایک لفظ کے اضافہ کے ساتھ سورۂ انفال میں دہرایا گیاہے
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۝۰ۚ (الانفال۳۹)
’’اے ایمان لانے والو! ان سے قتال کرویہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔‘‘
’’اوردین اللہ کے لیے ہوجائے‘‘ اس کا مطلب مفسرابن کثیر نے یہ لکھا ہے
اَیْ یَکُوْنُ دِیْنُ اللہِ ھُوَالظَّاھِرُالْعَالِیْ عَلٰی سَائِرِ الْاَدْیَانِ
(مختصر تفسیر ابن کثیر ج۱،ص۱۷۰)
’’یعنی اللہ کا دین ہی غالب اورتمام ادیان پربلند ہوجائے۔‘‘
اس مطلب کی دلیل کے طورپر ابن کثیر نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی یہ متفق علیہ حدیث پیش کی ہے
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا جو لڑتا ہے بہادری دکھانے کے لیے اور لڑتا ہے خاندانی حمیت کے جو ش میں اور لڑتا ہے دکھاوے کے لیے، ان میں کون سی لڑائی فی سبیل اللہ (اللہ کے راستے میں ) ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا جو اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، وہی جنگ فی سبیل اللہ ہوگی۔‘‘
اب پورے قرآن میں شمارکیجیے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ کے لیے کتنی آیتیں نازل ہوئی ہیں اوردین میں اس کو کیا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی عالم یہ کہتا ہے کہ اقامت دین کا حکم دہرایا نہیں گیا ہے تو دوصورتوں میں ایک ہی صورت ہوسکتی ہے۔ یا اس کی غرض یہ ہے کہ قرآن اس طرح نازل ہوتا جس طرح وہ چاہتا ہے یا وہ جانتے بوجھتے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے ایک بالکل غلط بات کہہ رہا ہے۔ ہم نے ایسے علماء کا معاملہ جو لوگوں کو اقامت دین کی جدوجہد سے بازرکھنے کے لیے اس طرح کی باتیں کہتے اورلکھتے ہیں، خدا پر چھوڑ دیاہے۔وہی ان سے سمجھے گا۔’رسائل ومسائل‘ کے صفحات میں اس مسئلے کی پوری تفصیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ آپ اس موضوع پرلکھی ہوئی تین کتابوں کامطالعہ کریں 
(۱) فریضۂ اقامت دین، مولانا صدرالدین اصلاحی
(۲) امت مسلمہ کا نصب العین، سید احمد قادری
(۳) اقامت دین فرض ہے، سید احمد قادری
یہ تینوں کتابیں آپ کو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی سے مل جائیں گی۔
(نومبر،۱۹۸۵ء،ج۳،ش۵)