رسول اللہؐ نے سفر میں سنتیں بھی پڑھی ہیں

,

سفر میں بعض لوگ منزل مقصود پر پہنچ جانے کے بعد بھی صرف فرض نمازیں ادا کرتے ہیں۔  فرض نمازوں سے پہلے یا اس کے بعد جو سنتیں ہیں وہ نہیں پڑھتے۔ہم لوگ سنتیں بھی پڑھتے ہیں ؟ ایک بار بعض ایسے لوگوں سے جو مسافرت میں سنتیں نہیں پڑھتے، پوچھا گیا کہ کیوں نہیں پڑھتے؟ توانھوں نے جواب دیاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں سنتیں نہیں پڑھی ہیں۔  اگر واقعہ یہی ہے کہ آپؐ نے سفر میں سنتیں کبھی نہیں پڑھی ہیں تب تو ہم لوگوں کا عمل خلاف سنت ہے۔ مہربانی کرکے احادیث کے حوالوں کے ساتھ واضح کیجیے کہ واقعہ کیا ہے؟

جواب

احادیث کے مطالعہ سےمعلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافرت میں سنتیں بھی پڑھی ہیں۔  میں ذیل میں چند احادیث کے ترجمے پیش کرتاہوں۔

۱-حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بخاری ومسلم اور نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں بھی فجر کی دوسنتیں کبھی ترک نہیں کی ہیں۔

۲- حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہےکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضروسفر دونوں میں نمازیں پڑھی ہیں تو میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کے چار فرض کے بعد دورکعتیں پڑھی ہیں۔  اسی طرح سفر میں ظہر کے دوفرض کے بعد دورکعتیں پڑھی ہیں اور عصر کی دو رکعتیں پڑھی ہیں۔  اس کے بعد آپؐ نے اور کوئی نماز نہیں پڑھی اور آپؐ کے ساتھ مغرب کی نماز حضروسفر دونوں میں تین رکعتیں پڑھی ہیں اور اس میں حضروسفر میں کمی نہیں ہوتی اور یہ وترالنہار ہے اور فرض مغرب کے بعد دورکعتیں پڑھی ہیں۔                                              (ترمذی،باب ماجاء فی التطوع فی السفر)

۳- عطاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ مکہ میں جمعہ کےفرض کے بعد اپنی جگہ سے ذرا اور آگے بڑھ کردورکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر ذرا اورآگے بڑھ کر چاررکعتیں پڑھتے تھے اور جب وہ مدینے میں ہوتے تھےتو نماز جمعہ کے بعد اپنے گھر واپس آکر دورکعتیں پڑھتے تھے اور مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ جب اس کےبارے میں ان سے پوچھا گیا تو کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔                                             (ابودائود بحوالہ مشکوٰۃ)

۴- حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں جب تطوع (فرض کے علاوہ کوئی دوسری نماز) کا ارادہ فرماتے تھے تو اپنی اونٹنی کے ساتھ قبلہ رو ہوکر تکبیر تحریمہ کہتے تھے پھر نماز پڑھتے تھے خواہ اونٹنی کا رخ اب کسی طرف ہو۔                (ابودائود بحوالہ مشکوٰۃ)

۵- حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ میں اٹھارہ سفروں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہاہوں۔  میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے آفتاب ڈھلنے کے بعد کی دورکعتیں ترک کی ہوں۔                                                          (ترمذی، ابودائود)

ان احادیث میں فجر سے پہلے کی سنتوں اور نماز ظہر ومغرب کے بعد کی سنتوں اور ان کے علاوہ نماز جمعہ کے بعد کی سنتوں کی صراحت ہے۔ نماز ظہر سے پہلے اور نماز عشاء کے بعد کی سنتوں کی صراحت ابھی مجھے نہیں مل سکی ہے۔ لیکن حضرت عائشہؓ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں اور اس کے بعد کی دورکعتوں کو کبھی ترک نہیں فرماتے تھے۔ اگر چہ اس حدیث میں حالت سفر کی صراحت نہیں ہے لیکن اس کی بھی کوئی وجہ نہیں کہ ہم حالت سفر کو مستثنیٰ کردیں۔  جب حضورؐ زوال کے بعد کی دو رکعتیں سفر میں بھی ترک نہیں فرماتے تھے جیسا کہ اوپر حضرت براء بن عازبؓ کی حدیث میں گزرچکا تو قیاس کاتقاضا یہی ہے کہ آپؐ ظہر سے پہلے کی سنتوں کو بھی ترک نہ فرماتے ہوں گے۔ اسی طرح آپ کے معمولات سفر کو دیکھتے ہوئے اس کی بھی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ عشاء کے بعد کی سنتوں کو سفر میں ترک کردیتے ہوں گے۔ جس ذات گرامی کا حال یہ ہوکہ اثناء سفر میں اونٹنی کی پیٹھ پر بھی نمازوں میں مشغول رہتی ہو۔وہ منزل مقصود پرپہنچ کرسنن موکدہ کس طرح ترک کردے گی۔ بہرحال اوپر جن احادیث کے ترجمے پیش کیے گئے ہیں ان سے بغیر کسی اشتباہ کے یہ ثابت ہوتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی سنتیں پڑھتے تھے۔

آپ کا جواب ختم ہوا۔ لیکن اخیر میں اس کی طرف بھی اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں سنتیں نہیں پڑھی ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ اصل یہ ہے کہ بعض لوگوں کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے غلط فہمی ہوئی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا ہے۔ آپ صرف فرض ادا فرماتے تھے۔ فرض سے پہلےاور اس کے بعد کی سنتیں نہیں پڑھتے تھے اور یہی عمل ابوبکر وعمروعثمان رضی اللہ عنہم کا بھی تھا۔ ان کی اس حدیث سے بعض لوگوں نے غلط طورپر یہ سمجھ لیا کہ انھوں نے یہ بات مطلقاً کہی ہے حالاں کہ انھوں نے اثنائے سفر کے بارے میں یہ بات کہی تھی۔ سفر کی دوحالتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی ابھی قطع مسافت کررہاہو اور منزل مقصود پرنہ پہنچا ہواور دوسری یہ کہ جہاں جانا چاہتاتھا وہاں پہنچ چکا ہو۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس حدیث میں جو بات کہی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ اثنائے سفر میں جب کہ سفرجاری ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سنتیں نہیں پڑھتے تھے۔لیکن منزل مقصود پرپہنچ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتیں پڑھی ہیں اور حضر ت ابن عمرؓ بھی پڑھتے تھے جو اس حدیث کےراوی ہیں۔

(مئی ۱۹۷۱ء،ج ۴۶،ش۵)