شاہ نعمت اللہ قادری کے اشعار

۸۸۰ھ میں کشمیر کے ایک اللہ والے بزرگ حضرت سیدشاہ نعمت اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ  نے چند پیشین گوئیاں تحریر فرمائی تھیں۔ آج کل کے زمانے تک ان کی ہرایک پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ہے۔ تازہ ترین واقعہ ’مشرقی بنگال‘ کے بارے میں انھوں نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ صحیح ثابت ہوگیا ہے۔ آج کل کشمیری حلقوں (یعنی عام مسلمانوں ) میں اس کا بہت چرچا ہوگیاہے- (مکتوب نگار نے ان کے بہت سے اشعار بھی لکھے ہیں )

جواب

 آپ نے شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار نقل کرکے مجھے یاد دلادیا کہ جب کوئی بڑا واقعہ مسلمانوں میں رونما ہوتا ہےتو ان کے اشعار گشت کرنے لگتے ہیں۔ میں عرصہ دراز سے یہ دیکھتا آرہاہوں۔ ان کی نظم کے بارے میں پوری تحقیق کی ضرورت ہے لیکن اب تک غالباً کسی ریسرچ اسکالر نے اس کی طرف توجہ نہیں کی ہے۔ یہ نظم کب لکھی گئی ؟اس کا اصل نسخہ کہیں ہے یا نہیں ؟ اصل نسخے میں کتنے اشعار ہیں ؟ ہر بڑے واقعہ کے وقت جو اشعار گشت کرنے لگتے ہیں کیا وہ اصل نسخے کے مطابق ہیں یا یار ان طریقت کسی واقعہ کے ظہور کے بعد اپنی طرف سے اشعارلکھ کر ان کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ اس طرح کے بہت سے سوالات تحقیق طلب ہیں۔                             (مئی ۱۹۷۲ء ج۴۸ش۵)

وضاحت

جناب ڈاکٹر مقصود عالم ایم اے، اعظم گڑھ سے لکھتے ہیں 

’زندگی‘ ماہ مئی ۱۹۷۲ء کے شمارہ میں شاہ نعمت اللہ قادریؒ کے اشعار اور پیشین گوئیوں کے بارے میں ایک استفسار کا جواب دیتے ہوئے آپ نے اس سلسلے کی تمام بوالفضولیوں کی تحقیق وتردید کی طرف متوجہ کیا ہے۔ مجھے بھی اس بارے میں برابر تشویش رہی کہ پھیلتی ہوئی ان بدعقیدگیوں کی بنیادکیا ہے؟اگر فی الواقع ایسی کوئی پیشین گوئی ہے تو حالات کی تصدیق نے اسے راسخ بنادیا ہے۔ لیکن جس تفصیل اورجس اندازکی پیشین گوئی مشہور کی جارہی ہے ویسی پیشین گوئی تو خود نبی ﷺ نے بھی نہیں فرمائی ہے۔ پھر کیا کسی بزرگ کو حضورؐ سے بڑھ کر علم غیب عطاکردیا گیاتھا؟ بنابریں شاہ نعمت اللہ ولی کے قصائد کی تحقیق کے لیے میں نے بھی دیرینہ کرم فرمامولوی محبوب حسین صاحب لائبریری اسسٹنٹ خدا بخش خاں اور ینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کو خط لکھا۔ موصوف نے اپنی عالمانہ بصیرت اور لائبریری کے تجربات کی روشنی میں پوری تحقیق کی اور شاہ نعمت اللہ ولی کے دیوان سے ۵۶اشعار کا وہ قصیدہ نقل کرکے مجھے بھیجا۔ اس ایک قصیدہ کے علاوہ ان کے کسی قصیدہ میں کوئی پیشین گوئی نہیں پائی جاتی۔موصوف نے اپنے خط میں مجھے لکھا ہے

’’دیوان ضخیم ہے، خط پاکیزہ اور اچھے حال میں ہے۔ غزل،قصائد، قطعات، رباعیات اور ترجیع بنداشعار پرمشتمل ہے۔پیشین گوئی اس قصیدے کے علاوہ دوسرے قصیدوں میں نہیں پائی جاتی۔ عام طور پر اخبارات میں جو اشعارپیشین گوئی پرمشتمل شائع ہورہے ہیں وہ سب الحاقی ہیں کسی معتبر دیوان میں ان کا وجود نہیں ہے۔‘‘

پھر اس دیوان کے بارے میں بطورسند درج فرماتے ہیں 

’’میرے یہاں کانسخہ بہت قدیم ہے اور مستند ہے۔ اس نسخہ کے سرورق پرشاہجہاں بادشاہ کی مہر ثبت ہے اور عبارت درج ہے۔‘‘

’’کتاب دیوان شاہ نعمت اللہ ولی بخط نستعلیق باسکہ عالم پناہ جلد سیاہ بابت اسد خاں فرزند نواب مصطفیٰ خاں مرحوم کتاب خانہ عامرہ شد بتاریخ ۱۶؍رجب ۱۰۵۹ھ تاریخ کتاب ہذا ۹۴۲ھ کاتب العبدابن عارف حسین الحسینی۔‘‘

اس طرح کل ۵۶اشعار کا قصیدہ ان پیشین گوئیوں کی تردید کرتا ہے جو ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ اصل میں کچھ لوگ جعلی پیشین گوئیاں شائع کرکے مسلمانوں کو اسلام کے بتائے ہوئے طریق جہدوعمل سے پھیرکران کو فکری وعملی انتشار میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور پیشین گوئیوں کا سہارا لیں۔ ‘‘

نوٹ جناب ڈاکٹر مقصود عالم صاحب نے مجھے ۵۶اشعار کا وہ قصیدہ بھیج دیا ہے۔ اس قصیدے کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ میں شاہ نعمت اللہ نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کے انتشار اور باہمی جنگ وجدال کا نقشہ کھینچا ہے اور دوسرے حصے میں یہ پیشین گوئی کی ہے کہ عنقریب امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دور شروع ہونے والا ہے ــــــ ظاہر ہے کہ ان کی یہ پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی۔ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اب تک نہ امام مہدی ظاہر ہوئے اور نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اترے۔ (مدیر زندگی) (جولائی ۱۹۷۲ء ج۴۹ ش۱)