اگر کوئی مسلمان ایسے مرض میں مبتلا ہوکہ عام طورپر لوگ اس کے ساتھ خلاملارکھنے سے اجتناب کرتے ہوں۔ مثلاً کوئی شخص برص میں مبتلا ہویا ٹی بی کا مریض ہوتو ایسے شخص کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے روکنا جائز ہے یا نہیں ؟ یہاں ایسی صورت پیش آگئی ہے کہ اگر ایسے مریض کو روکانہ جائے تو دوسرے لوگ مسجد میں آکر جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑدیں گے اور مسجد ویران ہوجائے گی۔
جواب
مسجد کے بارے میں عام طورسے یہ خیال پھیل گیا ہے کہ وہ چوں کہ اللہ کا گھر ہے، کسی آدمی کا گھر نہیں ہے اس لیے ہرمسلمان کو اس میں آنے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حق ہے، خواہ وہ کتنا ہی گندہ، بدبو اور اذیت پہنچانے والا ہو لیکن یہ خیال ہر لحاظ سے غلط ہے۔ احادیث اور فقہ کی صراحتیں توآگے آئیں گی۔ ہر مسلمان کوخود بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جب مسجد اللہ کا گھر ہے تو اس میں داخل ہونے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے اپنے گھر کے مقابلے میں زیادہ صفائی ستھرائی کی ضرورت ہے۔ یہ مسجد کے احترام کا بالکل واضح تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم، احادیث نبوی اور کتب فقہ میں مساجد کے مقاصد اوران کے ادب واحترام کے سلسلے میں مفصل تعلیمات موجود ہیں۔ یہاں صرف سوال سے متعلق جواب عرض کیا جارہاہے۔ میں پہلے وہ احادیث پیش کرتاہوں جن سے سوال کاجواب مستنبط ہوتاہے۔
۱-عَنْ جَابِرٍقَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ مَنْ اَکَلَ ھٰذِہٖ الشَجَرۃ المنتنۃ فَلَایَقَرّبنّ مَسْجِدنَا فَاِنَّ المَلَائِکَۃَ تَتَاذّیٰ مِمَّایَتَاذّیٰ مِنْہُ الِانْسُ۔ (مشکوٰۃ بحوالہ بخاری ومسلم)
’’حضرت جابرؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اس بدبودار شجرہ سے کھایا(یعنی پیاز کھائی) تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیوں کہ جن چیزوں سے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے ان سے فرشتوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘
۲-عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اکل ھذہ الشجرۃ فلایقربن مسجد ناولا یوذینابریح الثوم (مسلم)
’’حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یہ شجرہ کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور ہمیں لہسن کی بدبو سے تکلیف نہ پہنچائے۔‘‘
۳- من اکل ثومااوبصلا فلیعتزل مسجدنا ولیقعد فی بیتہ
(مشکوٰہ بحوالہ بخاری ومسلم)
’’جس نے لہسن یا پیاز کھائی وہ ہماری مسجد سے الگ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھے۔‘‘
۴-حضر ت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اے لوگو! تم پیاز اور لہسن کھاتے ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جب کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو محسوس فرماتے تو اس کو مسجد سے نکلوادیتے۔ (مسلم)
۵- عن ابی عمرفلایقربن المساجد حتی یذھب ریحھا (متفق علیہ )
’’حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ وہ ہماری مساجد کے قریب نہ آئے۔ یہاں تک کہ اس کی بدبو دور ہوجائے۔‘‘
علامہ نوویؒ شرح مسلم میں لکھتے ہیں
فلایقربن المساجد ھذا تصریح بنھی من اکل الثوم ونحوہ عن دخول کل مسجد ھذا مذھب العلماء کافہ۔
’’مساجد کے قریب نہ آئے۔ اس میں صراحت ہےکہ مسجد کوئی بھی ہو جس نے لہسن یااس جیسی بدبودار کوئی چیز کھائی ہواس کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا گیاہے۔‘‘
ترمذی کی ایک حدیث میں کراث کا بھی ذکرآتاہے۔ کراث یعنی گندنا۔ یہ ایک بدبودار ترکاری ہے جس کی بعض قسمیں لہسن سے اور بعض قسمیں پیاز سے مشابہ ہوتی ہیں۔ بعض روایتوں میں فجل یعنی مولی کا بھی ذکر ہے۔
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان اشخاص کو مسجد میں داخل ہونے اور نماز باجماعت میں شرکت کرنے سے روکا جاسکتا ہے جن سے نمازیوں کو تکلیف پہنچے۔
حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں لکھاہے
والحق بعضھم بذالک من بفیہ بخرومن بہ جرح ورائحہ وزاد بعضھم فالحق اصحاب الصنائع کالسماک والعاھات کالمجذوم ومن یوذی الناس بلسانہ۔
’’بعض علماء نے اس حکم میں اس شخص کو بھی داخل کیا ہے جو گندہ دہنی کا مریض ہو یا جس کے جسم میں زخم ہو اور بدبو پھیلتی ہو۔ اور بعض علماء نے اس میں مچھلی بیچنے والے اور جذام جیسے مرض میں مبتلا شخص کو بھی داخل کیا ہے۔ اور وہ شخص بھی اس حکم میں داخل ہے جو اپنی زبان سے لوگوں کو تکلیف پہنچاتاہو۔‘‘
ردالمختار(شامی) میں ہے کہ مبروص(جس کو برص کی بیماری ہو) بھی اس حکم میں داخل ہے۔ یعنی اس قسم کے تمام اشخاص کو مسجد میں آنے اور نماز باجماعت میں شریک ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ اس قیاس پرٹی بی کے مریض بھی اس حکم میں داخل ہیں اور وہ لوگ بھی داخل ہیں جو بیڑی پی کر مسجد میں آتے ہیں اور ان کے منہ سے بیڑی کی بدبو آتی رہتی ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچی پیاز یا کچا لہسن کھانے کے بعد یا بیڑی پینے کے بعد یا پان میں تمباکو کھانے کے بعد اگر منہ کو اچھی طرح پانی سے صاف کرلیاجائے اس طرح کہ دوسرے لوگ اس کی بدبو محسوس نہ کریں توپھر مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت ختم ہوجائے گی۔
دوسری بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ ٹی بی یا جذام یا برص کے مریض جن کا مرض بالکل نمایاں ہوان کو سختی کے ساتھ مسجد سے نہ نکالا جائے۔ بلکہ نرمی سے ان کو یہ سمجھایا جائے کہ فقہی حکم کے لحاظ سے جماعت کی حاضری ان سے ساقط ہوگئی ہے۔ اس لیے ترک جماعت کا جرم ان پر عائد نہیں ہوگا۔ وہ چوں کہ عذرکی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہوں گے اس لیے تنہانماز پڑھنے کے باوجود امید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جماعت کا ثواب عطا فرمائے گا۔
نوٹ اس جواب کی تیاری میں فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج ۱سے استفادہ کیاگیاہے۔
(دسمبر۱۹۸۲ء،جنوری ۱۹۸۳،ج۶۹،ش۶،ج۷۰،ش۱)