جواب
اقامت ِدین کی راہ کے مراحل مقرر نہیں ہیں ۔بلکہ ان مراحل کو جدوجہد اوروہ حالات جو جدوجہدکے دوران میں پیش آئیں ،اور وہ بصیرت جو اسلام کی روح کو سمجھنے والے راہ نما کے اندر ہوتی ہے،یہ سب چیزیں مل جل کر معیّن کرتی ہیں ۔ انبیا؊ کی زندگیوں میں ہم کو یہی نظر آتا ہے کہ سب کے سب ایک ہی قسم کے مراحل سے نہیں گزرے ہیں ۔ حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰ ؈، حضرت یوسف ؈ اور نبی ﷺ اور دوسرے انبیاکی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ دراصل جو چیز درکار ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے مقصد معین ہو اور ہمارے اندر وہ حکمت موجود ہو جو اس مقصد تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے اور ہم انبیا ؊ کے طریق ِ کار کو اچھی طرح سمجھ کر عملاًجدوجہد شروع کردیں ۔ پھرجو جو مراحل سامنے آتے جائیں گے، ان میں سے ہر مرحلے کے تقاضوں کو ہم اپنی حکمت سے سمجھتے جائیں گے اور اﷲ کے بھروسے پر اُن کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرتے جائیں گے۔
رہا آپ کا یہ خیال کہ پہلے تو وحی کی راہ نمائی کام کرتی تھی اس لیے صحیح وقت پر صحیح تدبیر اختیار کرلی جاتی تھی، مگر اب کیا ہوگا؟ تو اس کاجواب قرآن مجید میں دے دیا گیا ہے کہ وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا ({ FR 1190 }) (العنکبوت:۶۹) وہ خدا جو پہلے راہ نمائی کرتا تھا وہی اب بھی راہ نمائی کرنے کے لیے موجود ہے۔اس کی راہ نمائی سے فائدہ اُٹھانے والے موجود ہونے چاہییں ۔ ہمارے اندر اگر ایک دو آدمی بھی ایسے موجود رہیں جو قرآن کی روح اپنے اندر جذب کرچکے ہوں ،اور جماعت میں کم ازکم ایک معتدبہ اکثریت ایسے لوگوں کی موجود رہے جو قلب ِ سلیم کی نعمت سے بہرہ ور ہوں اور صحیح وغلط راہ نمائی میں امتیاز کرسکتے ہوں اورجن میں صحیح راہ نمائی کے لیے سمع وطاعت کا مادّہ موجود ہو، تو ان شاء اﷲ، خدا کی راہ نمائی بھی ہمیں ہرمرحلے پر حاصل ہوگی اور ہم اس کی راہ نمائی سے فائدہ بھی اُٹھا سکیں گے۔ (ترجمان القرآن، مئی جون،۱۹۴۴ء)