اقامت دین کی جدوجہد

ایک شخص اقامت دین کی جدوجہد میں ایک اسلامی جماعت کا جو یہ کام کررہی ہے، شریک کار ہے۔ مگر اپنے ملک کے حالات کے پیش نظر اس کی ذاتی رائے ہے کہ یہاں مطلوبہ تبدیلی جو جماعت کامقصد ہے، واقع ہونے کی توقع نہیں۔ اس کے بالمقابل ایک دوسرے شخص ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص مایوس ہے، کیوں کہ اس کو مطلوبہ تبدیلی پریقین نہیں ہے، اس لیے جماعت کی جدوجہد میں اس کو شریک رہنے کا حق نہیں ہے۔ پہلا شخص اس کے جواب میں کہتا ہے کہ لفظ مایوس کا استعمال اس موقع پر بے محل ہے، اس لیے کہ اقامت دین کی جدوجہد بھی دوسرے فرائض کی طرح ایک فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی رعایت نہیں دی ہے کہ جب تک مطلوبہ تبدیلی کا یقین نہ ہوجائے اس وقت تک مسلمانوں پر اس کام کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ کیوں کہ مقصود اطاعت امر رب، اس کی رضاجوئی اور اخروی زندگی کو کامیاب بنانا ہے۔ اور یہ بات ہرحال میں حاصل ہے، خواہ مطلوبہ تبدیلی واقع ہویا نہ ہو۔ اس لیے یہاں مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا---آپ بتائیں کہ ان دونوں خیالات میں کون سا خیال درست ہے۔ آیا ایسی حالت میں مذکورہ بالا شخص کو اپنی جدوجہد ترک کرکے علیٰحدگی اختیارکرلینی چاہیے؟

جواب

پہلے شخص نے جوبات کہی ہے وہی صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نظام اسلامی کو قائم کردینے کی ذمہ داری ہم پرنہیں ڈالی ہے۔ ہم جس بات کے ذمہ دارہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنی پوری قوت اور صلاحیت کے ساتھ اس کی کوشش کرتے رہیں۔ اگر ہم نے اپنی جدوجہد میں کوتاہی نہیں کی تو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوجائیں گے۔ اس کو مثال سے سمجھیے کہ لوگوں کو اسلام کی طرح بلانا اور اس کی تبلیغ واشاعت کے لیے سعی کرنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن کسی کے دل میں ایمان ڈال دینا اور اس کو مسلمان بنادینا ہماری ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ یہ ذمہ داری تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پربھی نہیں ڈالی تھی۔جب حقیقت یہ ہے تو پھر یہ یقین کرنا ضروری نہیں ہے کہ جس ملک میں ہم اقامت دین کی جدوجہد کررہے ہیں وہاں ہماری زندگی ہی میں عملاً دین برپا ہوجائے گا اور نظام اسلامی دوسرے باطل نظاموں پر غالب آجائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ ہماری کئی نسلوں تک نظام اسلامی عملاًبرپانہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے عملاً دین حق کو قائم کردیاتھا یا نہیں ؟ بلکہ یہ سوال کرے گا کہ تم نے اس کی پوری کوشش کی تھی یا نہیں ؟

پہلے شخص کو اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں شریک رہنا چاہیے، اس سے الگ ہونے کا گوکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے شخص نے جو بات کہی ہے اس سے اگر ان کامطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اس ملک میں دین حق کے غالب آنے کی توقع ہی نہ ہو اس کی جدوجہد میں سرد مہری پیداہوجائے گی اور وہ پورے شرح صدر اور سرگرمی کے ساتھ کوشش نہیں کرسکے گا، تو ان کی بات میں اس پہلو سے خاصا وزن ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپنی زندگی میں مطلوبہ تبدیلی واقع ہوجانے پریقین ضروری نہیں، لیکن توقع میں کون سی چیز مانع ہے۔ حالات کی سنگینی سےاتنا اثر لینا کہ اپنی زندگی میں غلبۂ دین کی توقع بھی ختم کردی جائے، صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت وقدرت اتنی عظیم ہے کہ وہ آن کی آن میں حالات کو بدل سکتا ہے اور غلبۂ دین کی راہ کھل سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس کی نصرت کا مستحق ثابت کردیں۔ ہماری توقعات کو اصلاً اللہ کی نصر ت وحمایت سے وابستہ ہونا چاہیے نہ کہ ملک کے حالات سے۔   (نومبر ۱۹۶۷ء ج ۳۹ ش۵)