تفہیم القرآن جلددوم سورۂ بنی اسرائیل آیت ۷۸ کی تفہیم کرتے ہوئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث کا حوالہ دیاہے۔’’جبرئیل نے دومرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی........پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا.........دوسرے روز عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد سے دگنا تھا.........پھر پلٹ کر جبرئیل نے مجھ سے کہا ...... یہی اوقات انبیاء کے نماز پڑھنے کے ہیں اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں۔ ‘‘
تشریح طلب بات یہ ہے کہ ہم لوگ ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد شروع کرتے ہیں اور اس وقت تک ظہر کا وقت رکھتے ہیں جب تک ہرچیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا نہیں ہوجاتا۔ اور عصر کا وقت اس وقت شروع ہوتاہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے قد سےدوگنا ہوجاتاہے۔ حالانکہ اس حدیث کے مطابق عصر کا وقت، اس وقت ختم ہوجاتاہے جب ہر چیز کا سایہ دوگناہوگیاہو، برائےمہربانی اس الجھن کو دور فرمادیں۔
جواب
تفہیم القرآن جلددوم میں امامت جبرئیل علیہ السلام کی جو حدیث پیش کی گئی ہے اگر اس کے بارے میں دوباتیں سامنے رہیں تو الجھن پیش نہیں آئے گی۔ایک بات یہ کہ وہ نمازوں کے اوقات بتانے کے لیے پیش نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ اس کا اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پانچ وقت کی نمازیں فرض کیں تو ساتھ ہی حضرت جبرئیل کو بھیج کر نمازوں کا طریقہ بھی سکھایا۔ دوسری بات یہ کہ اس حدیث سے نمازوں کے افضل اوقات معلوم ہوتے ہیں۔
پنج وقتہ نمازوں کے اوقات کے بارے میں کہ وہ کب شروع ہوتے اور کب ختم ہوجاتے ہیں ؟ دوسری متعدد احادیث مروی ہیں جو نہ صرف ترمذی وابودائود میں ہیں بلکہ بخاری ومسلم میں بھی ہیں۔ مثال کے طورپر امامت جبرئیل کی حدیث میں نماز فجر کے بارے میں یہ ہے کہ دوسرے دن انھوں نے ایسے وقت نماز پڑھائی جب اچھی طرح روشنی پھیل گئی۔ ظاہر ہے کہ اس سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ نماز فجر کا وقت کب ختم ہوتاہے؟ یہ بات دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتی ہے کہ نماز فجر کا وقت طلوع آفتاب تک باقی رہتاہے۔ بلکہ ایک حدیث میں تو ہے کہ اگر کوئی شخص نماز فجر کی ایک رکعت طلوع آفتا ب سے پہلے پڑھے اور دوسری رکعت طلوع آفتا ب کے بعد پوری ہوتواس کی نماز فجر ادا ہوگئی اور اگر کسی نے نماز عصر غروب آفتاب سے پہلے شروع کی لیکن نماز غروب آفتاب کے بعد پوری ہوئی تو نماز عصر ادا ہوگئی۔ امامت جبرئیل کی حدیث میں یہ جو ہے کہ دوسرے دن انھوں نے نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دومثل ہوگیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز عصر کا وقت اس کے بعد ختم ہوگیا۔ اس کا کوئی قائل نہیں ہے۔ تمام ائمہ کے نزدیک نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک باقی رہتاہے۔ البتہ عصر کا وقت شروع ہونے میں ائمہ مذاہب کے درمیان اختلاف ہے۔ ہم لوگ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر عمل کرتے ہیں۔ ان کا ایک قول یہ ہے کہ نماز عصر کا وقت اس وقت شروع ہوتاہے جب ہر چیز اس کے دومثل ہوجائے۔ انھوں نے ایک صحیح حدیث سے یہ قول اخذ کیا ہے۔ یہاں نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں ائمہ کے درمیان جو اختلافات ہیں اور ہر ایک کے جودلائل ہیں ان کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ بلکہ آپ کو جو الجھن پیش آئی صرف اسی کے بارےمیں عرض کیاگیاہے۔ (مارچ ۱۹۸۵ء،ج۲،ش۳)