جواب
فریضۂ اقامت دین کی حیثیت سمجھنے کے لیے آپ کو اُلجھن اس لیے پید اہوئی ہے کہ آپ ارکان اسلام اور فرائض اہل ایمان میں فرق نہیں کررہے ہیں ۔ارکان اسلام وہ ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے‘ اور فرائض اہل ایمان وہ مقتضیات ایمان ہیں جنھیں اسلامی زندگی کی تعمیر کے بعد پورا کیا جانا چاہیے۔ارکان اسلام قائم نہ ہوں تو سرے سے اسلامی زندگی کی عمارت کھڑی ہی نہ ہوگی۔لیکن اس عمارت کے کھڑے ہوجانے کے بعد اگر مقتضیات ایمان پورے نہ کیے جائیں تو یہ ایسا ہوگا جیسے جنگل میں ایک بے مصرف اور ویران عمارت کھڑی ہے۔ فریضۂ اقامت دین اسلام کا ستون نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی عمارت تعمیر کرنے کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے‘ اور مزید برآں اسی پر اس عمارت کے استحکام اور اس کی آبادی اور اس کی توسیع کا انحصار ہے۔اگر اس فرض کو مہمل چھوڑ دیا جائے تو اسلام کی عمارت بتدریج بوسیدہ ہوجائے گی، اور اس میں فسق وکفر کو قدم جمانے کا موقع مل جائے گا، اور اس کے وسیع ہوکر جمیع خلائق کے لیے پناہ گاہ بننے کا کوئی امکان ہی نہ ہوگا۔ اس لیے اس کام کو اسلام میں مسلمان کی زندگی کے مقصد کی حیثیت سے بیان کیا گیاہے:
جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ( البقرہ:۱۴۳)
’’اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’اُمت وسط‘‘ بنایا ہے۔ تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو۔‘‘
اور
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران:۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو۔‘‘ (ترجمان القرآن ، جولائی ۱۹۵۷ء)