باغ کے پھلوں کی خریدوفروخت

یہاں نوے فی صد باغ پھول کی آمدہی پر اور دس فیصد دودوتین تین سال کے لیے قبل از وقت ہی فروخت ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ لوگ کسی باغ کی خریدوفروخت میں کس طرح حصہ لیں جن کا عقیدہ ہے کہ باغ کی بیع وشرا اس وقت ہونی چاہیے جب پھل قابل انتقاع ہوجائیں۔ آخر ان کا معاشی مسئلہ کس طرح حل ہو؟

جواب

’’آخر ان کا معاشی مسئلہ کس طرح حل ہو؟‘‘ اس جملے کے پیچھے جو ذہن کام کررہاہے اس کو اپنے سوچنے کے ڈھنگ پرغورکرنا چاہیے اور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ سائل کو معلوم ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت دودوتین تین سال کےلیے کسی باغ کی بیع وفروخت کو ناجائز قراردیا تھا، اس وقت مدینہ منور ہ میں زراعت برائے نام ہوتی تھی اوران کی اقتصادیات کا انحصار کھجوروں کے باغوں ہی پرتھا اوراس طرح کی بیع وشرارائج تھی لیکن جب آپؐ نے اسے ناجائز قراردیا تو کسی ایک مسلمان نےبھی یہ عذر پیش نہیں کیا کہ آخرہمارا معاشی مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ آج سودی کاروباروباکی طرح پھیلا ہواہے اور اس سے منع کیجیے تو وہ لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر ہم اس کو چھوڑ دیں تو ہمارا معاشی مسئلہ کیسے حل ہو؟ اگر یہ عذر تسلیم کرلیاجائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ شرعی احکام اصل نہیں ہیں بلکہ معاشی مسئلے کا حل اصل چیز ہے۔ جن معاملات سے بھی معاشی مسئلہ حل ہوتا ہو ان کو جائز ہونا چاہیے اور شریعت کو ہاتھ باندھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ مخلص مسلمان کو اس طرزِ فکر سے پناہ مانگنا چاہیے۔ کسی باغ کو دودوتین تین سال کے لیے فروخت کرنا ائمہ اربعہ میں سے کسی کےنزدیک جائز نہیں ہے۔ شریعت میں اس کے لیےکوئی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔ جس وقت آموں کے پھول، پھل بن جائیں یعنی پھول بورمیں تبدیل ہوجائیں اس وقت اس باغ کو بیچنا جائزہے، اس سے پہلے جائز نہیں ہے۔
(جولائی ۱۹۶۵ء،ج۳۵،ش۱)