بسم اللہ سے متعلق ایک سوال

یہاں ایک صاحب کہتے ہیں کہ فرمان نبویؐ موجود ہے کہ نمازویسی پڑھو، جیسی میں پڑھتا ہوں اور قرآن مجید میں بسم اللہ الرحمن الرحیم سوائے سورۂ توبہ کے ہر سورہ کے پہلے موجود ہے۔ اب آپ بتائیے کہ بسم اللہ ہرسورہ کا جز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو کلام اللہ میں لکھی ہوئی کیوں ہے؟ اور اگر ہے تو آپ لوگ نماز میں کیوں نہیں پڑھتے؟ نماز میں بسم اللہ نہ پڑھنا سیرت رسولؐ کے مخالف ہے یا نہیں ؟

جواب

اکثر ائمہ دین کے نزدیک بسم اللہ نہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے اور نہ کسی اور سورہ کا۔ یہ صرف سورۂ نمل کی آیت ۳۰ کا جز ہے۔ اور وہ آیت یہ ہے اِنَّہٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۳۰ۙ ائمہ اربعہ میں صرف امام شافعی رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں کہ بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا بھی جزہے اور ہر سورہ کا جز بھی اور اپنے اسی مسلک کی بناپر وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو بھی زور سے پڑھنا چاہیے۔ لیکن ان کی دلیل بہت کم زور ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نمازوں میں زور سے بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ نے نمازوں میں زور سے بسم اللہ پڑھنے کو بدعت قراردیا ہے۔ اس مختصر جواب میں تمام احادیث اور دوسرے دلائل پیش کرنا مشکل ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سورہ سے پہلے اس کے اوپر بسم اللہ اس لیے لکھوائی تھی کہ سورتوں کے درمیان امتیاز رہے اور وہ مخلوط نہ ہونے پائیں۔ سورۂ توبہ سے پہلے آپؐ نے چوں کہ بسم اللہ نہیں لکھوائی اس لیے نہیں لکھی گئی۔ اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جز نہیں ہے۔ اس مختصر جواب سے یہ بھی واضح ہواکہ جہری نمازوں میں زور سے بسم اللہ نہ پڑھنا سنت کے مطابق ہے، اس کے خلاف نہیں ہے۔ جن صاحب نے یہ سوال کیا ہے وہ یا تو حدیث وفقہ کا علم نہیں رکھتے، یا خواہ مخواہ انھوں نے آپ کو ایک اختلافی مسئلے میں الجھانے کی کوشش کی ہے۔ نمازوں میں جہاں تک آہستہ بسم اللہ پڑھنے کا تعلق ہے ہم سب پڑھتے ہیں۔ (نومبر ۱۹۷۱ء ج ۴۷ ش۵)