کسی شخص نے ایک مکان دس ہزار روپیہ میں بیچا اور اسی مکان کو خود کرایہ پرلے لیا بعد ازیں اس نے خریدنے والے سے ایک سمجھوتہ کیا کہ دوتین سال بعد وہ اس مکان کو اسی دام پربیچنے والے سے فروخت کرے۔ اس معاملہ کی شرعی نوعیت کیاہوگی؟ یہ جائز ہے یا اس میں کوئی شرعی قباحت ہے؟
جواب
اس طرح کا معاملہ فقہی اصطلاح میں بیع الوفا کی ایک صورت ہے۔ چوں کہ سمجھوتہ بیع کی تکمیل کے بعد ہواہے اس لیے بظاہرا سے جائز ہونا چاہیے۔لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کو مطلقاً جائز قرار دینا صحیح نہیں ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر بعد کو ہونے والے سمجھوتے کی نوعیت شرط لازم کی نہ ہو بلکہ ایک ایسے وعدے کی ہو جس کو پورا کردے تو بہت اچھا ہے اور پورا نہ کرے تو بائع قانوناً اپنے فروخت کردہ مکان کو واپس لینے کی پوزیشن میں نہ ہوتو یہ معاملہ جائز ہوگا۔اور اگر اس سمجھوتہ کی نوعیت شرط لازم کی ہو کہ خریدار اسے واپس کرنے پر قانوناً مجبور ہوتو یہ معاملہ ناجائز ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واپسی کی شرط لازم کی صورت میں فی الواقع وہ مکان فروخت ہی نہیں ہو ا بلکہ اس کی حیثیت محض رہن کی ہوگی، اور رہن سے نفع کمانا جائز نہیں ہے۔کچھ لوگ اپنےدیے ہوئے روپے پرنفع حاصل کرنےکے لیے بیع کا حیلہ کرسکتے ہیں۔ (اکتوبر ۱۹۷۰ء،ج۴۵،ش۴)