تأویل کی غلطی اور شرک میں فرق

آپ کے رسالہ’’ترجمان القرآن‘‘ مارچ ۱۹۶۲ء کا باب’’ رسائل ومسائل‘‘ مطالعہ کیا۔ مضمون کی آخری سطور سے مجھے اختلاف ہے۔لہٰذا رفع اختلاف اور جستجوے حق کے جذبے کے تحت سطور ذیل رقم کررہا ہوں : کتاب وسنت کی واضح تصریحات سے مترشح ہوتا ہے کہ عَالِمُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ اور ’’حاضر وناظر ہونا‘‘اﷲ جل شانہ کی مختص صفات ہیں ۔بنا بریں جو مسلمان ان صفات مخصوصہ کاوجود حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ یا کسی اور نبی یا ولی میں تسلیم کر ے تو کتاب وسنت کے قطعی فیصلے کی رو سے وہ شرک کا مرتکب متصور ہوگا اور اس پر لفظ ’’مشرک‘‘ کا عدم اطلاق کتاب وسنت کے احکام سے روگردانی کے مترادف ہوگا۔ ایسے شخص کو مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے، تو یہ تشدد نہیں بلکہ عین مقتضاے انصاف ہے۔ آخر یہ کیا بات ہوئی کہ ان صفات کا غیر اﷲ میں تسلیم کرنا تو آپ کے نزدیک شرک ہو مگر اس شرک کا مرتکب مسلمان،اور اس پر ’’مشرک‘‘ کے لفظ کا اطلاق آپ کے نزدیک صریح تشدد! یہ تناقض کیوں ؟ آپ کسی مسلمان کو مشرک قرار اس لیے نہیں دیتے کہ اوّلاً وہ ’’تأویل کی غلطی‘‘ کا شکارہوتا ہے۔ ثانیاً وہ شرک کو شرک جانتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتا۔آپ کی یہ دونوں توجیہات میرے خیال میں مبنی بر صداقت نہیں ہیں ۔
جواب

میں نے جس قدر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے،اس کی بِنا پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو شرک کا ارتکاب کرے، یا جس کے عقیدہ وعمل میں شرک پایا جائے،اس کو نہ اصطلاحاً ’’مشرک‘‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے ساتھ مشرکین کا سا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔اس خطاب اور اس معاملے کے مستحق وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک شرک ہی اصل دین ہے،جو توحید کو بنیادی عقیدے کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے، اور وحی ونبوت اور کتاب اﷲ کو سرے سے ماخذدین ہی ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے خود یہود ونصاریٰ کے ارتکاب شرک کا ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً:
وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ ( التوبہ۹ :۳۰)
’’یہودی کہتے ہیں عزیرؑ اللّٰہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح ؑ اللّٰہ کا بیٹا ہے۔‘‘
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝۰ۭ … لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ
( المائدہ۵ : ۷۲،۷۳ )
یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ مسیح ابن مریمؑ اللّٰہ کے بیٹے ہیں … یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ اللّٰہ تین میں کا ایک ہے ۔‘‘
لیکن اس کے باوجود قرآن مجید میں ان کے لیے مشرکین کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی بلکہ ایک دوسری اصطلاح’’اہل کتاب‘‘ ان کے لیے الگ وضع فرمائی گئی۔ پھر ان میں اور مشرکین میں صرف یہ لفظی فرق ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ان کے ساتھ اہل ایمان کا معاملہ بھی مشرکین سے مختلف تجویز فرمایا گیا۔ اگر ان کو واقعی مشرک قرار دیا گیا ہوتا تو وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ (البقرہ۲ :۲۲۱) کے تحت ان کی عورتوں سے نکاح آپ سے آپ حرام ہوجاتا۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے کتابیات کا حکم مشرکات سے بالکل الگ رکھا اور ان سے نکاح کی مسلمانوں کو اجازت دے دی۔اسی طرح ان کے ذبائح کا حکم بھی مشرکین کے ذبائح سے مختلف رکھا۔اس کی وجہ آخر اس کے سوا کیا ہے کہ شرک میں مبتلا ہوجانے کے باوجود وہ توحیدہی کو اصل دین مانتے تھے اور نبوت وکتاب ہی کو ماخذ دین تسلیم کرتے تھے۔ اسی بِنا پر تو ان سے فرمایا گیا کہ:
تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ ( آل عمران۳ :۶۴)
’’آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللّٰہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں ، اور ہم میں سے کوئی اللّٰہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔‘‘
اور
وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰـہُنَا وَاِلٰــہُكُمْ وَاحِدٌ ( العنکبوت۲۹ : ۴۶)
’’اور ان سے کہو کہ ہم ایمان لاے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے ۔‘‘
اس کے برعکس اﷲ تعالیٰ نے’’مشرک‘‘ کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال فرمائی جو شرک ہی کو اصل دین مانتے تھے،جن کا اعتراض ہی نبیؐ پر یہ تھا کہ اَجَعَلَ الْاٰلِـہَۃَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ( ص۳۸ :۵ ) ’’کیا اس نے سارے خدائوں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔‘‘ اور جنھیں یہ بات سرے سے تسلیم ہی نہ تھی کہ دین کے عقائد واعمال وحی ورسالت سے ما ٔخوذ ہونے چاہییں : وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ (البقرہ :۱۷۰) ’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللّٰہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کروتو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔‘‘ان لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ’’مشرک‘‘ کا نام دیا، بلکہ اہل ایمان کا معاملہ ان کے ساتھ اہل کتاب سے مختلف رکھا۔
یہ حقائق چوں کہ میری نگاہ میں ہیں اس لیے میں یہ بات قطعی جائز نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کو’’مشرک‘‘ کہا جائے اور مشرکین کا سا معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے جو کلمۂ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کے قائل ہیں ۔ قرآن کو کتاب اﷲ اور سند وحجت مانتے ہیں ، ضروریات دین کا ا نکار نہیں کرتے، شر ک کو اصل دین سمجھنا تو درکنار، اپنی طرف شرک کی نسبت کو بھی بدترین گالی سمجھتے ہیں ، اور اس کے بعد تأویل کی غلطی کے باعث کسی مشرکانہ عقیدے اور عمل میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ وہ شرک کو شرک سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ ان کے یہ عقائد واعمال عقیدۂ توحید کے منافی نہیں ہیں ۔ اس لیے ہمیں ان پر کوئی برا لقب چسپاں کرنے کے بجاے حکمت اور استدلال سے ان کی یہ غلط فہمی رفع کر نے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ خود سوچیں کہ جب آپ اس طرح کے کسی آدمی کے سامنے اس کے کسی عقیدے یا عمل کو توحید کے خلاف ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ قرآن وحدیث کو سند و حجت مانتا ہے؟ کیا یہ استدلال آپ کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں ؟ پھر جب آپ اس سے کہتے ہیں کہ دیکھو، فلاں بات شرک ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تو کیا آپ اس وقت یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ یہ شرک کے گنا ہ عظیم ہونے کا قائل ہے؟ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آخر آپ اس کو شرک سے ڈرانے کا خیال ہی کیوں کرتے؟
(ترجمان القرآن ،مارچ ۱۹۶۳ء)