جبروقدرسے متعلق چند سوالات

میرے حلقہ مطالعہ میں سے ایک تعلیم یافتہ اور دینی رجحان رکھنے والے نوجوان دوست نے جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھا اور زندگی کے خریدار بھی ہیں۔ ایک دن وہ چند سوالات لے کر میرے پاس آئے۔ ان کی خواہش ہے کہ آپ ان کو اطمینان بخش جواب سے سرفراز فرمائیں۔ اختصار کے ساتھ ان کے سوالات لکھ رہاہوں۔

۱- انسان اورجنات ایسی مخلوق بنائی گئی جو گناہ کرسکتی ہے اس لیے وہی جنتی اور دوزخی ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق مشرک اورکافر توبہ کیے بغیر مرجائے توہمیشہ کے لیے دوزخ میں چلاجائے۔ ہرزمانے میں چند فی صد مسلمان نظر آتے ہیں اس طرح آج تین ارب آبادی میں ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں جو بیس فی صد ہوتے ہیں۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ دنیا میں اتنے زیادہ کفار ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اور ان کی اصلاح کی ذمہ داری کس پر ہے؟

۲-اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان اور جنات اس کی عبادت کریں تو اسے ان میں ایسی سمجھ دینی چاہیے تھی جیسی فرشتوں اور انبیاء میں دی تھی۔

۳-اگر خدا نے انسان وجنات کو پیدا کیا ہے تو ان کو سکھ اورآرام پہنچانے کا ذمہ دار بھی وہی ہے۔ ابوجہل بھی حضرت عمرؓ کی طرح ہوسکتا تھااگر خدا چاہتا۔ پھر جب مرضیِ مولا ہی نہیں تو وہ مجرم کیوں ہوا؟اتنے کثیر آدمیوں کو دوزخ میں کیوں جلایا جائے گا جب کہ وہ قادرمطلق ہے، چاہتا تو وہ سبھی لوگ جنتی بن سکتے تھے۔

۴-خدا انسان وجنات کو آگ میں جلانا پسند کرتاہے ورنہ وہ ایسا سامان مہیا کرتا جس سے وہ نجات کی راہ پاسکتے۔

جواب

ان سوالات کو پڑھ کر احساس ہوا کہ آپ کے نوجوان دوست یا توابھی صفاتِ الٰہی اور انسان کے بارے میں اللہ کی مشیت ومرضی سے واقف نہیں ہوئے، یا کسی شخص نے ان کے سامنے یہ سوالات رکھ کر انھیں الجھانے کی کوشش کی ہے۔ جس شخص کو یقین ہوکہ خدا ہے اور اس پوری کائنات کا انسان سمیت وہی خالق ومالک ہے، وہ علیم وحکیم بھی ہے، رحمٰن ورحیم بھی ہے،غفوروشکوربھی ہے اور اس پوری کائنات کا حاکم علی الاطلاق بھی ہے، اس کے افعال پراعتراض کا حق کسی کونہیں۔
یہ یقین رکھتے ہوئے کوئی شخص کبھی یہ اعتراض نہیں کرسکتا کہ خدا نے ایک ایسی مخلوق کیوں پیدا کی جوگناہ بھی کرسکتی ہے۔ ایسا شخص اپنے آپ کو خدا کے غضب سے بچانے اور اس کی رحمت کا مستحق بنانے کے لیے سرگرم عمل رہے گا۔وہ اس طرح کے لاحاصل سوال پروقت ضائع کرنا کبھی پسند نہ کرے گا۔اس مختصر سی اصولی تمہید کے بعد میں ذیل میں چندباتیں نوجوان دوست کے غوروفکر کے لیے پیش کررہاہوں۔
۱-اگر انسان بھی فرشتوں کی طرح معصوم پیدا کیاجاتا توپھر انسانوں اور فرشتوں میں حقیقی امتیاز کیا ہوتا؟ کمال یہ ہے کہ کوئی شخص گناہ کرسکتا ہو اور پھر اپنے اختیار سے گناہ نہ کرے۔ اگر کسی میں گناہ کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہ ہوتو اس کا گناہ نہ کرنا اس کے اپنے اختیار کی کوئی بات نہ ہوگی۔ گناہ کی صلاحیت رکھتے ہوئے گناہ نہ کرنا یہی تووہ بات ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے۔ تو کیا کسی انسان کو اپنی اسی شرافت وکرامت پراعتراض ہے؟
۲-یہ کوئی نیا اعتراض نہیں ہے۔ مشرکین نے بھی کہا تھا لَوْشَاءَاللہُ مَااَشْرَکْنَا (اگر اللہ چاہتاتو ہم شرک نہ کرتے)۔اس اعتراض کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ بے شک اللہ میں یہ قدرت ہے کہ وہ چاہے تو تمام انسان ہدایت یافتہ ہوجائیں لیکن اس نے انسانوں کی ایک بااختیار مخلوق اس لیے پیدا کی ہے کہ وہ اسے آزمائے جو اس کی اطاعت کرے، اسے انعام دے اور جو اس کی نافرمانی کرے اس کوسزادے۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ تخلیق پرپابندی عائد کرنے کا حق کس کو ہے؟
فرشتوں نے انسان کی تخلیق کے وقت یہ شبہہ پیش کیاتھا کہ ایک ایسی مخلوق کیوں پیدا کی جارہی ہے جو نافرمانی بھی کرے گی۔ آپ اپنے نوجوان دوست کو قرآن کا یہ مقام اوراس کی تفسیر مطالعہ کرنے کا مشورہ دیجیے۔
۳-اللہ کی مشیت اوراس کی مرضی میں فرق ہے۔ ایمان وکفر اور فرماں برداری ونافرمانی سب سلطان کائنات کی مشیت کے تحت ہے۔ لیکن اس کی مرضی وخوش نودی کا تعلق صرف ایمان وفرماں برداری کے ساتھ ہے۔ اس نے اعلان کردیا ہے کہ وہ ایمان واطاعت سے خوش ہوتاہے اور کفرومعصیت سے ناخوش۔
۴-بنی نوع انسان نہ مختار مطلق ہے اور نہ مجبورمحض ہے۔ اللہ نے اس کو اتنا اختیاردیا ہے کہ وہ کفرواسلام اورخیروشر میں جس چیز کو چاہے اپنے لیے پسند کرسکتا ہے لیکن کفروشر کاانجام براہوگا اوراسے پسند کرنے والا خدا کے غضب کا مستحق ہوگا۔ ابوجہل نے اپنے لیے کفروشرکا راستہ پسند کیا اور حضرت عمرؓ نے اسلام وخیرکا۔اللہ نے نہ حضرت عمرؓ کو مجبورکیاتھا اورنہ ابوجہل کو۔
۵- خدا نے اپنے رسول اوراپنی کتابیں بھیج کر انسان کی ہدایت کا مکمل سامان مہیا کردیا ہے۔ اللہ جن اور انسان کو آگ میں جلانا پسند نہیں کرتا بلکہ نافرمان لوگ آگ میں خود جلنا پسند کرتےہیں۔
۶- ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ دنیا میں سوفی صد مسلمان تھے۔ بعد کو وہ شیطان اور نفس کے اغوا سے بھٹک گئے۔ ان کے کفروشرک کا الزام خدا پر نہیں بلکہ خود انھیں کے اپنے اختیار پرہے۔ یہ ہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ اپنے قول وعمل سے گم راہوں کے سامنے راہِ حق پیش کرتے رہیں اور ان کی اصلاح کی سعی سے غافل نہ ہوں۔ (اگست ۱۹۶۵ء،ج ۳۵،ش۲)