مجھے جمادی الآخرۃ ۱۳۸۶ھ (اکتوبر۱۹۶۶ء) کے ’زندگی‘ میں ڈاکٹر اسرار احمد کی کتاب پرآپ کا تبصرہ پڑھنے کا موقع حاصل ہوا۔ اس کے ایک فقرے پرمجھے تعجب سا ہوا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ’’اب اس وقت فاضل مصنف کی حیثیت ایک فریق کی ہے اس لیے جب تک دوسرے فریق کا بیان بھی اسی تفصیل سے سامنے نہ ہوکسی غیرجانب دار کے لیےدونوں کے درمیان منصفانہ محاکمہ ممکن نہیں۔ ‘‘
دراصل یہ پورا مقالہ فروری ۱۹۵۷ء کے اجتماع عام منعقدہ ’ماچھی گوٹھ‘ میں پڑھاگیا تھا اور اس نقطۂ نظر کے دوسرے حامیوں نے بھی وہاں مفصل تقریریں کی تھیں۔ یہ اجتماع اسی لیے منعقدہواتھا کہ پالیسی اور نصب العین کے اختلاف کافیصلہ ارکان کے اجتماع عام میں کیا جائے۔ ان کے جواب میں مولانا نے بھی ایک مفصل تقریر کی تھی جو ’تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل ‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوچکی ہے۔ دونوں طرف کی پوری بات پیش ہونے کے بعد جب رائےشماری کی گئی تو نو سو بیس ارکان نے مولانا کے پیش کردہ لائحہ عمل کی توثیق کی اور صرف پندرہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ یہ بات میری سمجھ میں نہ آسکی کہ تبصرہ کرتے وقت اتنی اہم سرگزشت اور اس سلسلۂ واقعات سے کیسے ذہول ہوگیا؟ ڈاکٹر صاحب نے تو شاید قصداً ہی اس بات کو چھپایاہے کہ ان کا یہ مقالہ نوبرس پہلے پوری جماعت کے ساڑھے نوسوارکان کے سامنے پیش کیاگیا تھا اوراس کا مفصل جواب بھی دیاگیا تھا اورجس جماعت کے دستورکو کم ازکم اس وقت وہ تسلیم کررہے تھے اس کے اجتماع عام میں ارکان کی عظیم اکثریت نے ان کی رائے کے خلاف فیصلہ دے دیاتھا۔ اس بات کا چھپانا تو ان کے مقصد کے لیے مفید ہے، مگر تبصرہ کرتے وقت آپ کو اس معاملے سے بے خبر نہ رہنا چاہیے تھا۔
جواب
مجھے یہ بات معلوم نہ تھی کہ ڈاکٹر اسراراحمد کا یہ پورا مقالہ ’ماچھی گوٹھ ‘ میں پڑھا گیا تھا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہ بات بتادی۔ آپ نے میرے جس فقرے کا حوالہ دیا ہے اس پر آپ کو تعجب اس لیے ہواکہ آپ نے بعد والے جملےکی طرف دھیان نہیں دیا۔ میں نے اس فقرے کے بعد لکھا ہے ’’اورجہاں تک تبصرہ نگار کا تعلق ہے وہ محاکمے کو مفید بھی نہیں سمجھتا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تبصرہ نگار محاکمہ کرنے کی ذمہ داری سے بچنا چاہتا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بحث کومفید نہیں سمجھتا۔
ڈاکٹر صاحب کی کتاب نے مجھے جن پہلوئوں سے متاثر کیاتھا انھیں میں نے اپنے تبصرے میں لکھ دیاہے۔ جماعت اسلامی پاکستان سے باہر نکلنے والے دونمایاں افراد نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی مدظلہ العالی اور جماعت اسلامی کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور ان کی تحریروں کا بڑا حصہ غصے، جھنجلاہٹ، جارحیت، جو ش انتقام اور کہیں کہیں سوقیت کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔پھر یہ کہ اب وہ جماعت اسلامی کے نصب العین سے بھی متفق نہیں رہے ہیں بلکہ انھوں نے اس کے خلاف بھی لکھنا شروع کردیا ہے۔ ان دوافراد میں جو نمایا ترین فرد ہیں ان کی تحریروں سے تو ایسا محسوس ہوا ہے کہ پوری جماعت میں ان کی ذات ہدایت کامنارہ تھی اور جب وہ نکل آئے تو اس میں گم راہی اورتاریکی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب مجھے غنیمت معلوم ہوئی تھی۔ویسے یہ بات میں نے لکھی ہے کہ دس سال کے بعد اس کتاب کی اشاعت کا جو سبب انھوں نے لکھا ہے اس سے مجھے اطمینان نہیں ہوا۔
اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے جس نیت اور جس مقصد کا واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے اس کو بلادلیل رد کردینے کی کوئی وجہ نہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ محاکمہ کرنے کے بجائے میں نے اپنے تبصرے میں اس چیز پرزور دیاتھا کہ ڈاکٹر صاحب کو مثبت کام کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ گڑے مردے اکھاڑنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس سے پاکستان کی اسلام پسند قوت کو نقصان پہنچے گا۔ مجھے توقع تھی کہ وہ اپنے طریقۂ کار پرنظرثانی کریں گے، لیکن ان کی دوباتوں سے مجھے صدمہ پہنچا۔ ایک یہ کہ میثاق میں ’نقض غزل‘ کے عنوان سے جو سلسلۂ مضامین انھوں نے شروع کیا ہے اس کا بڑا مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ مولانا مودودی کو مطعون کیا جائے اورلوگوں کی نظر میں ان کی وقعت کم کی جائے۔ دوسری بات یہ کہ انھوں نے نومبر۱۹۶۶ء کے میثاق میں جماعت اسلامی ہند کے سرکاری ترجمان ماہ نامہ زندگی رام پور کے پہلے اور آخری پیراگراف کے سرنامے کے ساتھ میرے تبصرے کے صرف اول و آخردومختصر پیرگراف شائع کیے ہیں۔ تنقید کا حصہ اور وہ حصہ جس میں ان سے ان کے موجودہ طریقۂ کار پر نظر ثانی کی گزارش کی گئی تھی، حذف کردیے گئے ہیں۔ ’سرکاری ترجمان‘ کی صراحت سے شاید وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جیسے یہ تبصرہ بھی جماعت اسلامی ہند کا سرکاری تبصرہ ہے، حالاں کہ کسی کتاب پر تبصرہ، تبصرہ نگار اپنے علم اوراپنی ذاتی رائے کے مطابق کرتاہے۔ اس کا تعلق، سرکاردربار سے کچھ نہیں ہوتا۔
اگر ڈاکٹر صاحب کے پیش نظر جماعت اسلامی پاکستان کے خلاف ایک نیا تحریری محاذ کھولنا اور مولانا مودودی کو لوگوں کی نگاہوں میں ہلکا ثابت کرنا ہے تو مجھے اس سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ میں نے اپنے تبصرے میں بھی لکھا تھا’’اگر مصنف فی الواقع وہاں کی جماعت کے خلاف کوئی محاذ کھولنا نہیں چاہتے تو ان کو اپنے موجودہ طریقۂ کار پر نظرثانی کرنی چاہیے ورنہ اس سے جماعت اسلامی کی تنظیم کو نقصان پہنچے یا نہ پہنچے ان لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچے گا جو پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو ناپسند کرتے ہیں۔ ‘‘
میں پہلے بھی یہی خیال رکھتا تھا اوراب بھی یہی خیال رکھتا ہوں کہ جماعت اسلامی پاکستان اپنے نصب العین سے منحرف نہیں ہوئی ہے۔ جو لوگ اس پر انحراف کا الزام لگاتے ہیں ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔ تبصرے میں اپنی اس رائے کا صراحتاً اظہار نہ کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ مجھے اس میں کوئی تذبذب تھا اور نہ یہ وجہ تھی کہ ’ماچھی گوٹھ‘کا اجتماع مجھے یاد نہ رہاہو۔ اس کا ذکر توڈاکٹر صاحب کی کتاب میں بھی موجود ہے۔ بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں ڈاکٹر صاحب کو ماضی کی اس داستان کو نظر انداز کرکے، مثبت کام پر آمادہ کرنا چاہتا تھا۔ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی پرانی بحث کو نظر انداز کرنے پر آمادہ نہ ہوسکے۔ اب تجربہ ہی ان کو بتائے گا کہ اس بحث کامفید نتیجہ نکلتا ہےیا مضر۔
میں نے تبصرے میں جماعت اسلامی پاکستان کے رفقاء کی خدمت میں جملہ شرطیہ کے ساتھ یہ درخواست پیش کی تھی کہ اگر ڈاکٹر صاحب کے الزامات میں دس بیس فی صدی الزامات بھی صحیح ہوں تو انھیں غورکرنا چاہیے۔یہ درخواست اب بھی ہے۔
ہم میں سے ہر شخص کو خدا کے سامنے اپنے قول وفعل کا حساب دینا ہے۔ یہاں کسی کی حمایت یامخالفت آخرت کے انجام پراثر انداز نہ ہوگی۔ (دسمبر ۱۹۶۶ءج۳۷ش۶)