تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ امام حسن ؓ نے کثرت سے نکاح کیے اور کثرت سے طلاقیں بھی دیں۔ اس کی ایک صاحب نے یہ توجیہ کی کہ خاندانِ نبوت سے انتساب کا شرف حاصل کرنے کے لیے عورتیں خود ہی حضرت امام کو آمادہ کرتی تھیں کہ وہ کثرت سے طلاق دیں۔ ایک دوسرے صاحب نے کہا کہ آل رسول سے نکاح کرکے عورتیں اخروی نجات حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ تیسرے صاحب نے کہا کہ حضرت علیؓ نے ان کو اس سے روکا تھا مگر وہ نہ رکے۔
ان باتوں کو سن کر عجیب الجھن پیداہوتی ہے۔ مجھے تو اس میں برہمنی ذہنیت کار فرما نظر آتی ہے۔ نجاتِ اخروی کا مدار عقیدہ وعمل پرہے نہ کہ نسب پر۔ حضرت امام کے بارے میں اس سے سوءِ ظن میں مبتلا ہونے کا خوف ہے۔پھر یہ کہ حضرت علیؓ کے منع کرنے کے باوجود ان کا نہ رکنا بھی عجیب معلوم ہوتا ہے۔ کیا انھوں نے اپنے والد کی نافرمانی کی؟ اس سوال سے حضرت امام کی شان میں سوءِ ظن نہیں بلکہ ازالہ شکوک مقصود ہے۔
جواب
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بکثرت نکاح کرنے او رطلاق دینے کی توجیہ میں جو باتیں لوگوں نے کہی ہیں وہ ان کے اپنے خیالات وقیاسات ہیں۔ اور یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ عورتیں ان سے اس لیے نکاح کرتی تھیں کہ انھیں نجات اخروی حاصل ہو۔ یہ ایک گھڑی ہوئی بات ہے۔ اس کو واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آپ خود سوچیں کہ خاندان نبوت میں صرف حضرت حسنؓ ہی تو نہ تھے، حضرت حسینؓ بھی تو تھے لیکن ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔نجات اخروی کی بات ہوتی تو ان کے ساتھ بھی وہی ہوتا جو حضرت حسن ؓ کے ساتھ ہوا۔ یعنی ان سے بھی عورتیں یا ان کے سرپرست کہتے ہیں کہ آپ نکاح کرکے طلاق دے دیا کریں تاکہ ان عورتوں کو نجات حاصل ہوجائے۔ خود حضرت علیؓ کے ساتھ بھی نہیں ہوا حالاں کہ وہ حضرت حسن وحسین کے والد ماجد تھے اور درجے میں بہرحال ان سے بلند تھے۔تعجب ہے کہ اس قسم کی لغوباتیں سن کر آپ جیسے لوگ الجھن میں کیوں مبتلا ہوجاتے ہیں ؟ یہ بات بھی صحیح نہیں کہ حضرت علیؓ نے حضرت حسن ؓ کو کثرت نکاح وطلاق سے روکا تھا اور وہ نہ رکے، بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ انھوں نے کوفہ میں دوسرے لوگوں سے یہ کہاتھا کہ وہ حسنؓ سے اپنی لڑکیاں بیاہنے میں احتیاط کریں۔ اس سے مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ وہ بکثرت طلاق بھی دیا کرتےہیں۔ ایسا نہ ہوکہ لوگ اس بات سے ناواقفیت کی بناپر اپنی لڑکیوں کا نکاح ان سے کریں۔ لیکن اس تنبیہ کے باوجود لوگ خوشی سے اپنی لڑکیوں کا نکاح ان سے کرتے تھے بلکہ تاریخ میں یہ بھی ہےکہ بعض افراد نے بالا علان کہا کہ کثرت طلاق کے باوجود ہم اپنی لڑکیاں ان کو دیں گے۔ رہایہ سوال کہ حضرت حسنؓ ایسا کیوں کرتے تھے اور لوگ اپنی لڑکیاں انھیں کیوں دیتے تھے تو اس کے وجوہ و اسباب کی صراحت تاریخ میں نہیں ملتی۔ البتہ حضرت حسنؓ کی صحابیت، ان کی اچھی تربیت اور ان کے تقویٰ وطہارت سے امید یہی ہے کہ ان کے پاس طلاق کی کوئی معقول وجہ ضرو ر ہوتی ہوگی۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے کہ ان کی کسی مطلقہ نے ان پر یہ الزام لگایا ہوکہ انھوں نے اس کو بلاوجہ طلاق دے کر اس پر زیادتی کی ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس زمانے میں مطلقہ عورت کو معاشرے میں بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتاتھا اور نہ اس کو کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے میں کوئی دشواری پیش آتی تھی۔ (اگست ۱۹۶۷ء،ج۳۹،ش۲)