خداشخص ہےیا محض قوت؟

یہاں ایک اسلامی حلقہ احباب ہے جو خدا کو شخص کے بجائے قوت ماننے پرمصر ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالا ت کے جوابات دیجیے

۱-       ازروئے قرآن وحدیث خدا شخص (PERSON)ماناگیاہے یا محض قوت (POWER)؟

۲-      ہم محدود ومجسم اور خدالامحدود جو جسم سے پاک۔ تووہ قیامت میں زمین پرکیسے آئے گا وَجَاءَرَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّاصَفًّا اور دیدار خدا جنت میں کس طرح ہوگا؟

۳-      بہت سی حدیثیں ہیں جن میں یہ آتا ہے کہ آں حضورؐ نے خواب میں خدا کو بہترین صورت میں دیکھا۔ خود مشکوٰۃ میں کفارات ودرجات والی حدیث میں ہے۔

(مشکوٰۃ ج ۱، باب المساجدد ومواضع الصلوۃ فصل دوم، حدیث ۹)

جواب

آپ کے سوالات کے جوابات سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ چند اصولی باتیں عرض کردی جائیں۔ مہربانی کرکے انھیں صبر کے ساتھ پڑھ لیجیے۔ اس کے بعد جوابات پڑھیے۔
آپ کے سوال سے معلوم ہوتاہے کہ آپ قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ نے اس حدیث کا مطالعہ بھی کیا ہوگا جس میں تقدیر کے مسئلے پربحث کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مشکوٰۃ، کتاب الایمان باب القدر،فصل دوم میں حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث مروی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے 
’’وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے جب کہ ہم لوگ تقدیر کے مسئلے میں منازعت کررہے تھے۔ یہ دیکھ کر سن کر آپ کو غصہ آگیا۔ یہاں تک کہ آپ کا چہرہ ایسا سرخ ہوگیا جیسے آپ کے دونوں گالوں میں انارنچوڑدیا گیا ہو۔آپ نے فرمایاکیا تمہیں اسی کا حکم دیاگیا ہے؟ کیا میں اسی کام کے لیے تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ؟ تم سے پہلے لوگ جب اس معاملہ میں جھگڑنے لگے تو برباد ہوگئے۔ میں تم پر لازم کرتاہوں کہ تم تقدیر کے مسئلے میں ہرگز بحث ونزاع نہ کرو۔‘‘
غورکیجیے کہ جب اتنی تاکید کے ساتھ تقدیر پربحث کرنے سے روکا گیا ہے تو پھر مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی کنہ ذات میں بحث ونزاع کس طرح درست ہوگا؟ مشرق ومغرب کے جن فلاسفہ نے اللہ کی کنہ ذات کے بارے میں بحث کی ہے انھیں اس بحث سے شک، ارتیاب، اضطراب یہاں تک کہ انکار کے سوا اور کیا چیز حاصل ہوئی ہے؟ جو چیز انسانی عقل وادراک سے بلند ہواس کی صورت، شخصیت اور حقیقت جاننے کے پیچھے پڑنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکل سکتا ہے کہ انسان کسی ایک شک کو دورکرنے کے لیے بیسیوں شکوک اپنے ذہن میں پیداکرلے۔
دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ عالم آخرت اپنے قوانین میں اس موجودہ دنیا سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس لیے اس عالم کے بارے میں جو کچھ ہمیں بتایا گیا ہے اس کی حقیقت اس دنیا میں منکشف نہیں ہوسکتی۔
تیسری بات یہ کہنی ہے کہ جو چیز یں عالم غیب میں ہیں ان کو عالم شہادت یعنی موجودہ دنیا کی چیزوں پرقیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ مثال کے طورپر فرشتے ہماری نگاہوں سے غائب ہیں۔ ان کو اپنی معلومات ومشاہدات میں سے کسی چیز پر قیاس کرنا ایک غلط قیاس ہوگا۔ ان چیزوں کے بارے میں جتنی باتیں ہم جان سکتے ہیں وہ بتادی گئی ہیں اور وہ ہماری ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ ان چند اصولی باتوں کے بعد آپ کے سوالات کے مختصر جوابات یہ ہیں۔
۱- اگر آپ واضح کردیتے کہ اسلامی حلقہ احباب کے جو لوگ خدا کو محض قوت ماننے پرمصر ہیں ان کے اصرار کی وجہ کیا ہے؟ تو جواب دینے میں آسانی ہوتی۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو ان تمام صفات سے متصف مانتے ہیں جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے اوروہ قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کرتے ہیں جو بواسطہ جبریل سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا تو پھر اس کو محض پاورماننے پراصرارکا کیا مطلب؟ جب تک ان کے اصرار کی وجہ معلوم نہ ہو،کوئی صحیح جواب نہیں دیا جاسکتا۔ ویسے قرآن اور احادیث نے ہمیں خدا کا جو تصور عطا کیا ہے وہ ایسی ذات کا تصور ہے جو تمام صفات جمال، جلال اورکمال سے متصف اور تمام عیوب ونقائص سے پا ک ہے اور جس کی صورت، تشخص اورکنہ ذات انسانی عقل وادراک سے ماورا ہے۔ قرآن وحدیث کی روسے اللہ قوی یعنی قوت والا ہے، محض قوت نہیں ہے۔ انگریزی زبان میں POWERکا اطلاق خدا پر بھی ہوتاہے لیکن یہ اطلاق اس لفظ کے مجازی معنی کے لحاظ سے ہے، اس لفظ کے حقیقی معنی کے لحاظ سے نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ ’پاور‘ کے حقیقی معنی ایک ایسی چیز کے ہیں جس میں توانائی اورزورتوہوتاہے لیکن وہ عقل،فہم، ادراک اورارادہ سے محروم ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس معنی میں خدا کوقوت ماننا اس پر ایمان نہیں بلکہ درحقیقت اس کا انکار ہے۔ مغرب کے بہت سے ’دانش وروں ‘ نے بعض ایسی چیزوں کے انکار کے لیے جوان کے حواس خمسہ سے باہر ہیں، یہ حیلہ تراشا ہے کہ اسے ’پاور‘ کہہ کرجان چھڑائی جائے۔ مثلاً وہ ملائکہ اور شیطان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ سب پاور ہیں، پرسن نہیں ہیں۔ اوراس سے ان کا مطلب یہ ہوا ہے کہ ان چیزوں کا سرے سے کوئی خارجی وجود ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ان کے فریب سےہوشیاررہنا چاہیے۔
۲-اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے بارے میں اس طرح کی تمام آیتوں پرہمارا ایمان ہے،لیکن ہم اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ آپ نے سورۃ الفجر کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس کا تعلق عالم آخرت سے ہے۔ قرآن وحدیث میں تواللہ کے بارے میں ایسی باتیں بھی کہی گئی ہیں جن کا تعلق مخصوص طورپر عالم آخرت سے نہیں۔ اس کے باوجود ہم اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ مثلاً خدا کے لیے قرآن میں ید (ہاتھ) اوروجہہ (چہرہ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور صحیح احادیث میں آتاہےکہ اللہ روزانہ رات کے پچھلے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ ہمارااس پر ایمان ہے لیکن ہم اس کی کیفیت اور حقیقت نہیں جانتے اور اس عدم واقفیت کی وجہ سے نہ ہماری زندگی میں کوئی خلا ہے اور نہ راہ ہدایت ہم پر بندہے۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے یہ ہم پرپوری طرح واضح ہے۔
۳- اس کا جواب بھی جواب ۲میں آگیا ہے۔ آخرت میں خدا کےدیدارپر ہمیں یقین ہے لیکن ہم اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ ہماری عقل اس پر مطمئن ہے کہ اللہ اپنی تمام صفات کے ساتھ موجود ہے۔ سیدنا محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن اس کی بھیجی ہوئی کتاب ہدایت ہے اس لیے اس میں جو کچھ ہے سب برحق ہے، خواہ اس میں کی کچھ چیزوں کی حقیقت ہماری محدود عقل میں سماتی ہویا نہ سماتی ہو۔
(مئی ۱۹۷۱ء، ج ۴۶،ش۵)