آپ سے درخواست ہے کہ درج ذیل سوالات کے جواب سے نوازیں
(۱) کتابوں کے مطالعہ کا بہترین طریقہ کیاہے؟ (۲) دعوت دین کے طریق کا رپر اہم کتابیں کون کون ہیں ؟ (۳) ان کے مطالعہ واستفادہ وافادہ کی مناسب ترتیب کیاہوگی؟
جواب
آپ نے جو سوالات کیے ہیں ان کا جواب دینے کی اہلیت تو مجھ میں نہیں ہے لیکن جواب اس لیے دے رہاہوں کہ شاید میری کوئی بات آپ کے لیے مفید ہوجائے۔
(۱) میری نزدیک کتابوں کے مطالعہ کا بہتر طریقہ یہ ہےکہ جس کتاب کامطالعہ کرنا ہو اس کا موضوع بحث پہلے اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور پھر کتاب کا کوئی حصہ پڑھ لینے کے بعد سوچا جائے کہ اس حصے میں کیا باتیں کہی گئی ہیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس پرنشان لگادیا جائے۔ اسی طرح اگر کوئی بات صحیح معلوم نہ ہو تو اس پر بھی نشان لگادیا جائے۔ اسی طرح پوری کتاب پڑھی جائے۔ پوری کتاب پڑھ لینے کے بعد ممکن ہے جو بات سمجھ میں نہ آئی تھی وہ سمجھ میں آجائے ورنہ پھر اسے سمجھنے کی تدابیر اختیار کی جائیں، جو بات صحیح معلوم نہ ہوئی تھی اس پر بھی پھرنظر ڈال لی جائے۔ اس محنت سے کوئی کتاب پڑھ لی جائے تو اس کے مضامین پرہولڈ حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر کسی دوسرے کواس سے فائدہ پہنچانا چاہیں تو آسانی ہوجاتی ہے۔
(۲) دعوت دین اور اس کے طریق کار پر مولانا امین احسن اصلاحی مدظلہ کی کتاب سے بہتر کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری ہے، نہ اردو میں اور نہ عربی میں۔ شیخ حسن البنا رحمہ اللہ اور ان کے متوسلین نے جو کچھ لکھا ہے آپ اس سے واقف ہوں گے۔
(۳) مطالعہ کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے دین کے عقائد، اصول اور کلیات کا علم حاصل کیاجائے۔ استفادے کی شکل اوپر بیان ہوئی۔ افادہ موقع ومحل کے لحاظ سے کرنا ہوگا۔ اس مختصر جواب کے بعد اخیر میں چند باتیں عرض کرنا چاہتاہوں۔
اگر آپ دعوت دین اوراس کے طریقوں پرہولڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو قرآن حکیم اور احادیث نبوی کے بحرذ خار میں غوطے لگائیے۔ دعوت دین اور اس کے طریقہ ہائے کار کے آب دار موتی اسی سمندر سے حاصل ہوں گے اور جس کو بھی حاصل ہوئے ہیں اسی سمندر سے حاصل ہوئے ہیں۔ قرآن حکیم میں دعوت دین کے جو اسالیب ہیں اور نبی ﷺ نے جن متنوع اسالیب میں دین کی دعوت دوسروں تک پہنچائی اورصحابۂ کرام کی تربیت کی اس سے بہتر کسی طریقے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ عربی تفاسیر میں اس مقصد کے لیے میرے نزدیک تفسیر ابن کثیر سب سے زیادہ مفید ہے۔ (مئی ۱۹۸۶ءج۴ش۵)