ذوی الارحام کی وراثت

 میری والدہ کے ایک خالہ زاد بھائی زید تھے۔ ان کی شادی ان کے چچا کی لڑکی سے ہوئی تھی۔ ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ پھر میاں بیوی میں اختلاف ہوا اور شوہر نے اپنی زمین ایک شخص کے نام لکھ دی لیکن قبضہ زید ہی کا رہا۔ وہی اس سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ پھر ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد ان کے سسرال والے اس زمین پر قابض ہوگئے، وہی لوگ کاشت کرنے لگے اور آمدنی زید کی بیوی کو دینے لگے۔ چند سال بعد میرے والد نے اس زمین پرقبضہ کرلیا اور اس کا غلہ او رآمدنی زید کی بیوی اوربیٹے پرصرف کرنے لگے۔ زید کے بیٹے کو اپنے یہاں رکھ لیا۔ زید کی بیوی برابر کوشش کرتی رہی کہ زمین لڑکے کے نام لکھ دی جائے، لیکن زمین پرقابض لوگ یہ کہتے رہےکہ زید کا لڑکا جب بالغ ہوجائے گا تواس کے نام زمین لکھ دی جائے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ پہلے زید کی بیوی کا انتقال ہوگیا اور پھرزید کے لڑکے کا بھی انتقال ہوگیا۔لڑکے کاجب انتقال ہوا تو نہ اس کے ماں باپ تھے اور نہ بھائی بہن تھے، صرف ایک ماموں ہیں۔ زید کا لڑکا شادی سے پہلے ہی مرگیاتھا۔ زید کی تین ایکڑزمین اب ہم دوبھائیوں کے قبضے میں ہے۔ میری والدہ زید کی خالہ زاد بہن ہیں۔ میں جماعت کارکن ہوں۔ یہ خیال ہورہاہے کہ زمین پرمیرا قبضہ غلط نہ ہو، ویسے مجھے زید کا کوئی جائز وارث بھی نظر نہیں آرہاہے۔ آپ یہ بتائیں کہ

(۱)      زید کے لڑکے کا جائز وارث کون ہے؟

(۲)     کیا زمین پر میں اپنا قبضہ برقرار رکھ سکتا ہوں ؟

جواب

 آپ نے جو تفصیل لکھی ہے اس سے ظاہر ہے کہ زید نے اپنی زمین فرضی طورپر کسی کے نام لکھی تھی اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ زمین کا مالک زید ہی تھا۔ زید کے انتقال کے وقت اس کے جائز وارث صرف دوتھے۔ اس کی بیوی اور اس کا بیٹا۔ زید کی بیوی کے انتقال کے بعد اس کا جائز وارث صرف اس کا بیٹا تھا۔ اس طرح زید کا بیٹا پوری زمین کامالک تھا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے جائز وارث اس کےماموں ہیں جو فقہی اصطلاح کے لحاظ سے ذوی الارحام میں داخل ہیں۔ ذوی الارحام ان رشتہ داروں کو کہتے ہیں جن کا کوئی حصہ نہ قرآن کریم میں مقرر کیاگیا ہواور نہ احادیث نبوی میں اور نہ وہ میت کے عصبات میں داخل ہوں۔ ذوی الارحام کون لوگ ہیں اور ان کے وارث ہونے کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں اور نہ آپ کے مسئلہ سے اس کا براہ راست کوئی تعلق ہے۔ ماموں کے وارث ہونے کے بارے میں توحدیث بھی موجود ہے۔ امام ترمذیؒ نے اپنی جامع میں دو حدیثیں روایت کی ہیں۔ ایک میں یہ ہے کہ حضرت عمربن الخطابؓ نے ابوعبیدہؓ کو لکھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’الخال وارث من لا وارث لہ‘ (ماموں وارث ہےاس کا جس کا کوئی وارث نہ ہو)۔اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح لکھا ہے۔ دوسری حدیث انھوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’ الخال وارث من لا وارث لہ ‘ (ماموں وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو)۔مطلب یہ ہے کہ اصحاب الفروض اور عصبات میں سے اگر میت کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا ماموں اس کا وارث ہوگا۔ اس مسئلہ میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف کاذکر کرتے ہوئے امام ترمذیؒ نے اپنی جامع میں لکھاہے

وإلی ھذا الحدیث ذھب اکثر اھل العلم فی توریث ذوی الأرحام۔

(ترمذی ج۲ ابواب الفرائض)

’’ذوی الارحام کو وارث قراردینے کے مسئلے میں اکثر اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں۔ ‘‘

قاضی ثناء اللہ عثمانی پانی پتیؒ نے تفسیر مظہری جلد۲ آیات میراث کی تشریح کرتے ہوئے ذوی الارحام کے وارث ہونے پر بھی اچھی خاصی گفتگو کی ہے اور حدیث کی مختلف کتابوں سے روایات نقل کی ہیں۔ ان سب کو یہاں پیش کرنا موجب طوالت ہے۔ اتنی تفصیل میں نے آپ کے اطمینان کے لیے پیش کردی ہے۔ زید کی زمین پرآپ کا قبضہ صحیح نہیں ہے۔ وہ زمین زید کے بیٹے کے ماموں کو دے دیجیے۔ پسر زید کے ماموں تو زید کے چچازاد بھائی بھی ہیں اس لیے ان میں میت کے دادھیال اورننھیال دونوں کے رشتے جمع ہوگئے ہیں۔                                 (مئی ۱۹۸۶ء ج۴ ش۵)