رحمۃ للعالمین ﷺ کا مفہوم

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے عالموں کے لیے رحمت کہاجاتا ہے اور اس کے ثبوت میں یہ آیت پیش کی جاتی ہےوَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۱۰۷ (الانبیاء۱۰۷)  ’’او ر ہم نے تم کو بھیجا ہے تمام عالموں کے لیے رحمت بناکر۔‘‘ عقل اس بات کو ماننے میں تذبذب کا شکار ہے۔ اس لیے کہ زمین کی حیثیت کائنات میں ایسی ہے جیسے کسی صحرائے اعظم میں ایک کنکرکی یا بحرالکاہل میں پانی کے ایک قطرے کی۔اس کے علاوہ آپ کی رسالت تو صرف دومخلوق جن وانس تک محدود ہے۔اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کو جو رب العالمین کہاجاتاہے یعنی سارے عالموں کاحاکم اعلیٰ تویہ بات عین عقل کے مطابق معلوم ہوتی ہے کیوں کہ وہ تمام عالموں کا رب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح تمام عالموں کے لیے رحمت ہوں گے؟ مہربانی کرکے اس تذبذب کو اپنے جواب سے دورکیجیے۔

جواب

پہلی بات یہ سمجھیے کہ ’العالمین‘ کا لفظ قرآن میں تمام جہانوں یعنی پوری کائنات کے لیے بھی استعمال ہواہے، جیسے ’رب العالمین ‘اور صرف اس دنیا کے لیے بھی استعمال ہواہے جس میں ہم اور آپ رہتے بستے ہیں۔ اس محدود معنیٰ کے لیے میں یہاں صرف تین مثالیں پیش کرتاہوں۔
(الف) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پراپنے احسانات جتاتے ہوئے فرمایا ہے
يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۴۷
(البقرہ۴۷)
’’اے بنی اسرائیل! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیا تھا اوراس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پرفضیلت عطاکی تھی۔‘‘
ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کو اسی عالم کے لوگوں پر فضیلت عطاکی گئی تھی نہ کہ پوری کائنات اوراس کے باشندوں پر۔
(ب) حضرت مریم کے بارے میں کہاگیا ہے
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىكِ وَطَہَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ۝۴۲ (آل عمران۴۲)
’’اورجب فرشتوں نے کہا اے مریم!اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطاکی اور تمہیں دنیا بھر کی عورتوں پرترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا۔‘‘
کھلی بات ہے کہ حضرت مریم کو اسی دنیا کی عورتوں پرفضیلت عطاکی گئی تھی۔
(ج) سورۂ الحجر میں ہے
قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَــنْہَكَ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۝۷۰ (الحجر۷۰)
’’وہ بولے کیا ہم نے تمہیں دنیا بھر کے لوگوں کی حمایت سے منع نہیں کیاتھا۔‘‘
بالکل واضح ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے ان کو اسی عالم کے لوگوں کی حمایت سے منع کیا تھا۔جب یہ لفظ محدود معنی میں بھی استعمال کیاگیا ہے تو یہ بات دوسرے دلائل سے متعین کی جائے گی کہ ’العالمین ‘ کا لفظ کہاں پوری کائنات کے لیے استعمال کیاگیا ہے اور کہاں صرف اسی عالم کے لیے۔ آپ نے اپنے سوال میں سورۂ الانبیاء کے آخری رکوع کی جس آیت کا حوالہ دیاہے۔اس میں اکثر مفسرین نے ’العالمین‘ کا لفظ اسی عالم کے محدود معنی میں لیا ہے پوری کائنات کے معنیٰ میں نہیں لیا ہے۔ اردو میں بھی قرآن کے جو مستند تراجم موجود ہیں ان میں میری نظر سے ’تمام عالموں کے لیے‘ کا ترجمہ نہیں گزرا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی نے یہ لفظی ترجمہ کیاہو۔ مسلمان عام طورسے حضورؐ کو رحمۃ للعالمین’ رحمت عالم‘ ہی کے معنیٰ میں کہتے ہیں۔ یعنی حضورؐ اس عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے آپ کے عقلی تذبذب کے لیے کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔
اب دوسرے پہلو سے غور کیجیے۔ اگر یہ مان لیاجائے کہ اللہ نے اپنے آخری رسول کو تمام عالموں کے لیے رحمت بناکر بھیجا تھا تو ہماری عقل کو یہ تسلیم کرلینے میں تذبذب کیوں ہوگا؟کیا صرف اس لیے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ آپ دوسرے عالموں کے لیے کس طرح رحمت ہوں گے؟ تذبذب کی یہ معقول وجہ نہیں ہے۔ دیکھیے، ہم اور آپ منقول ومعقول دلائل کی بنیاد پر اللہ کو تمام کائنات کا رب مانتے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں یہ معلوم ہے کہ پوری کائنات کے لیے اس کے رب ہونے کی نوعیت کیا ہے؟ انسان تو ابھی کائنات کی وسعت بھی ناپ نہیں سکا ہے۔دوسرے عالموں کی مخلوقات کے ساتھ اللہ کی ربوبیت کی نوعیت کا ابھی تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے معلوم ہواکہ اللہ کو پوری کائنات کارب ماننے کے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ ہرہرعالم کے ساتھ اس کی ربوبیت کی نوعیت کیا ہے؟ اسی طرح اگر ہم یہ مان لیں کہ اللہ نے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالموں کے لیے رحمت بناکر بھیجا تھا تو ہمارے لیے یہ جاننا ضروری نہ ہوگا کہ دوسری دنیائوں کے لیے آپؐ کے رحمت ہونے کی نوعیت کیا ہے؟ یہ بات اللہ کے علم میں ہے جس نے آپ کو اپنی کائنات کے لیے رحمت بناکر بھیجاہے۔ اس لیے اس معنیٰ کے لحاظ سے بھی آپ کی عقل کو تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔باقی رہی یہ بات کہ آپ کی رسالت جن وانس تک محدود ہے تو بے شک جمہورائمہ دین اسی کے قائل ہیں۔ لیکن متعدد جلیل القدرائمہ نے کہا ہے کہ حضورؐ کی رسالت جن وانس تک محدود نہیں ہے، بلکہ کائنات کی دوسری ذی عقل مخلوقات تک وسیع ہے۔
(اکتوبر۱۹۶۹ء،ج۴۳،ش ۴)