رضائے الٰہی اور جنت

ایک صاحب علم نے قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بتایا کہ مومن اپنی زندگی میں اللہ کی راہ میں جو کوشش کرتاہے اس کا اصل مقصود ’جنت ‘ ہونا چاہیے نہ کہ رضائے الٰہی۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اپنی جدوجہد کا مقصود رضائے الٰہی کو بنایا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ رضائے الٰہی مقصود اصلی نہیں بلکہ ذریعہ ہے مقصود اصلی کا۔ آیات کی روشنی میں براہ کرم یہ بتائیے کہ رضائے الٰہی کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ کوئی حسی مظہر ہوگا جو اس کے حاصل کرنے والے محسوس کریں گے؟ انسان کس شکل میں اس کا ادراک کرے گا؟ قدروقیمت اور فضیلت کے لحاظ سے جنت کو مقصود بنانے اور رضائے الٰہی کو مقصود بنانے میں کیا فرق ہے؟

اگر رضائے الٰہی کو ذریعہ اور جنت کو ماحصل ومطلوب سمجھا جائے تو عقیدۃً کیا فرق پڑتا ہے ؟

جواب

مجھے یہ معلوم ہے کہ آپ کے یہاں ایک تنظیم، جنت کو مقصود اصلی اور رضائے الٰہی کو اس کے حصول کا ذریعہ قراردیتی ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ(اللہ ان کی مغفرت فرمائے) نے لوگوں کو یہ سمجھایا ہے کہ مومن کامقصد حیات نہ عبادت ہے اور نہ رضائے الٰہی کا حصول۔ کیوں کہ یہ مقصود اصلی کو حاصل کرنے کا ذریعہ اور سبب ہیں خود مقصود نہیں۔
جہاں تک میں نے غورکیا ہے اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی تمام آیات کو سامنے نہیں رکھا گیا ہے بلکہ بعض آیات پرنظر جمالی گئی ہے۔ قرآن اور احادیث سے استفادے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کسی موضوع سے متعلق تمام آیات اور تمام احادیث کو سامنے رکھاجائے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو غلط فہمی لازمی ہے۔ صحیح جواب تک انسان پہنچ ہی نہیں سکتا۔
میرا خیال ہے کہ جو شخص بھی سمجھ کر قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ یہ پائے گا کہ قرآن نے رضائے الٰہی کے حصول ہی کو مومن کی تمام جدوجہد کا آخری ہدف اور حقیقی مقصود قراردیا ہے۔ لیکن اس کے لیے مختلف اور متعدد تعبیریں اختیارکی گئی ہیں۔ کہیں ابتغاء مرضات اللہ کی تعبیر ہے اور کہیں ابتغاء رضوان اللہ کی۔ کہیں اس کو ابتغاء وجہ اللہ کہاگیا ہے اور کہیں آخرت کی کام یابی سے اس کی تعبیر کی گئی ہے۔ کہیں طلب جنت کی ترغیب دی گئی ہے اور کہیں جہنم سے استعاذے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ان تمام تعبیرات کا مقصود اصلی صرف ایک ہے اور وہ ہے آخرت میں رضائے الٰہی کا حصول۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حصول جنت کو مقصود اور اپنے اعمال خیر کی غرض وغایت بنانا رضائے الٰہی کو مقصود بنانے سے کوئی متضاد اور مختلف شئے نہیں ہے، بلکہ رضائے الٰہی مقصود ہے اور جنت اس کا انعام۔ یہ انعام اسی کو ملے گا جس سے اللہ راضی اور خوش ہوگا اور جس سے اللہ راضی ہوگا اس کو جنت ضرور ملے گی کیوں کہ اللہ نے اپنے فرماں بردار بندوں سے اس کاوعدہ کیاہے۔
میں یہاں رضائے الٰہی کو مقصودو مطلوب بنانے کے سلسلے میں چند آیتوں کے ترجمے نقل کرتاہوں۔ مناسب ہوگا کہ آپ ان آیتوں کے الفاظ قرآن میں پڑھ لیں۔
ابتغاء مرضات اللہ
(۱) اور لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بیچتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔(البقرہ۲۰۷)
(۲) جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات وقرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی سطح مرتفع پرکوئی باغ ہو۔ اگر زوروں کی بارش ہوجائے تو دوگناپھل لائے اوراگر زورکی بارش نہ بھی ہوتوایک ہلکی پھوارہی اس کے لیے کافی ہوجائے۔تم جو کچھ کرتے ہو سب اللہ کی نظر میں ہے۔(البقرہ۲۶۵)
(۳) اور جوکوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔(النساء ۱۱۴)
ابتغاءرضوان اللہ
تم انھیں رکوع اورسجدے کرتے ہوئے دیکھوگے(وہ اس حال میں )اللہ کا فضل اور اس کی رضاڈھونڈتے ہیں۔ (الفتح۲۹)
ابتغاءوجہ اللہ
۱- ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضاطلب کرتے ہوئے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھرانھیں لوگوں کے لیے ہے۔(الرعد ۲۲)
اس آیت نے صراحت کے ساتھ بتایا کہ صبرہویا اقامت الصلوٰۃ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہویا برائی کو بھلائی سے دفع کرنا، ان چیزوں کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول ہے اور جن لوگوں کو رضاحاصل ہوگی انھیں کو آخرت کی کام یابی نصیب ہوگی۔
۲-اور جو لوگ اپنے رب کو دن رات پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوش نودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں، انھیں اپنے سے دورنہ پھینکو۔ (الانعام۵۲)
۳- وہ خود کھانے کی رغبت ومحبت رکھتے ہوئے محتاج، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور یہ کہتے ہیں ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کو کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے اس کا نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔ ہم اپنے مالک سے ڈرتے ہیں ایک ایسے دن سے جو بڑا اداس اور سخت ہوگا۔(الدھر۸۔۱۰)
دیکھیے ان آیتوں میں ایک طرف رضائے الٰہی کی طلب ہے اور دوسری طرف قیامت کا خوف ہے۔ یعنی رضائے الٰہی کی طلب اور عذاب آخرت سے بچنے کا جذبہ ایک ہی حقیقت کی دو تعبیر یں ہیں۔
۴- اور عنقریب جہنم سے اسے بچالیا جائے گا جو سب سے زیادہ متقی ہے، جو پاکی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور کسی کا اس پر احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جائے۔ (بلکہ وہ مال صرف کرتاہے) اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے۔ (اللیل ۱۷۔۲۱)
اب تک جن آیتوں کے ترجمے نقل کیے گئے ہیں انھیں پڑھ کر کیا کوئی صاحب علم اس کا خیال بھی کرسکتا ہے کہ مومن کی جدوجہد کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول نہیں ہے؟ لیکن اس کو کیا کہا جائے گا کہ ایسے صاحبان علم موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ رضائے الٰہی کو مقصود بنانا غلط ہے۔ اس کی وجہ وہی معلوم ہوتی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ انھوں نے تمام آیتوں کو سامنے نہیں رکھا بلکہ بعض آیتوں پرنظرجمالی ہے۔
آخرت کی کام یابی
قرآن نے ایک جگہ بڑے جامع انداز میں یہ بتایا ہے کہ آخرت کی کام یابی کیا چیز ہے
’’ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا۔توجو شخص آتش جہنم سے دوررکھاگیا اور بہشت میں داخل کیاگیا وہی کام یاب ہے اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔‘‘ (آ ل عمران۱۸۵)
ظاہر ہے کہ جہنم سے وہی شخص دور رکھاجائے گا اور بہشت میں وہی داخل ہوگا جس سے اللہ راضی ہوگا اور جسے رضائے الٰہی کی نعمت بے بہا حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جنت کو اللہ کی رحمت سے بھی تعبیر کیاگیا ہے
’’رہے وہ لوگ جن کے چہرے(قیامت میں ) روشن ہوں گے تو انھیں اللہ کی رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی میں رہیں گے۔‘‘ (آل عمران۱۰۷)
یہاں ’رحمت اللہ ‘ جنت ہی کو کہا گیا ہے۔ ابن کثیر نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے
’’یعنی انھیں جنت میں جگہ ملے گی اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے کبھی اس سے نکلنا نہ چاہیں گے۔‘‘
اس کی تائید اس صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جب تک اللہ مجھے اپنی مغفرت ورحمت سے ڈھانک نہ لے میں بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ قرآن میں جنت کو ’اللہ کا فضل ‘ بھی کہاگیا ہے۔
’’دوڑواپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف جس کا پھیلائو آسمان وزمین کے پھیلائو کی طرح ہے۔ اور یہ جنت ان لوگوں کے لیے تیارکی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پرایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطاکرتاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ (الحدید۲۱)
اس آیت سے اس حقیقت پر پوری روشنی پڑتی ہے کہ جب تک اللہ کی مغفرت، رحمت، فضل اور اس کی رضا شریک حال نہ ہو تو کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔
اس آیت پراس پہلو سے غورکیجیے کہ اس میں ایک طرف اللہ کی مغفرت اور جنت کی طرف لپکنے کا حکم دیا جارہاہے۔ وہ جنت جو اللہ اور اس کے رسولوں پرایمان لانے والوں کے لیے تیارکی گئی ہے اور دوسری طرف یہ کہا جارہاہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہے عطاکرے۔ معلوم ہوا کہ اصل چیز اللہ کا کرم ہے۔اس آیت کے ساتھ سورۂ فتح کی وہ آیت پڑھیے جس میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حال بیان کرتےہوئے کہاگیا ہے
’’تم انھیں رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھوگے(وہ اس حال میں ) اللہ کا فضل اور اس کی رضاڈھونڈھتے ہیں۔ ‘‘ (آیت ۲۹)
اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا ہی اصل مقصود ہے۔ جنت اس اصل کی فرع اور اس کا پھل ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رضائے الٰہی مقصود اصلی نہیں ہے وہ بالکل غلط اور الٹی بات کہتے ہیں۔ قرآن نے اللہ کی رضا کو جنت سے بڑی چیز قراردیا ہے ورضوان من اللہ اکبر۔ پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے 
’’اللہ نے مومن مردوں اورمومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اورجاوداں بہشتوں میں نفیس مسکنوں کا وعدہ کیا ہے اور اللہ کی رضا ان سب سے بڑی ہے۔ یہی بڑی کام یابی ہے۔‘‘ (التوبہ۷۲)
اس آیت میں صراحت کے ساتھ اللہ کی خوش نودی کو جنت اور اس کی نعمتوں سے بڑی چیز قراردیاگیا ہے۔ اس کی وجہ اس کے سواکچھ نہیں کہ آخرت کی تمام کام یابیوں اورنعمتوں کی اصل اللہ رب العزت کی رضا اور خوش نودی ہی ہے اور بندۂ مومن کو جنت اسی لیے مطلوب ہے کہ وہ اللہ کی رضامندی کا گھر ہے۔ ورضوان من اللہ اکبر (اور اللہ کی خوش نودی سب سے بڑی نعمت ہے) اس ٹکڑے کی تشریح بخاری ومسلم کی حدیث میں موجود ہے
حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو پکارے گا۔ اے اہل جنت ! وہ کہیں گے ہم حاضر ہیں اور خیر کی تمام کائنات تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ اللہ کہے گا کیا تم راضی خوشی ہوگئے؟ وہ کہیں گے پروردگار! بھلا ہم کیوں راضی نہ ہوں جب کہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کردیا جو اپنی کسی مخلوق کو عطانہیں کیا۔ اللہ فرمائے گا کیا میں تم کو اس سےبہتر شے عطانہ کروں ؟ وہ کہیں گے۔ پروردگار! اس سے بہترچیز اور کیاہوگی؟ تو اللہ فرمائے گا میں تمہیں اپنی دائمی خوش نودی عطا کرتاہوں اب اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔‘‘ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ باب صفۃ الجنہ واھلہا)
انسان دنیا میں اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے۔ اس پراللہ کی پرستش اوراطاعت واجب ہے۔ وہ زندگی کے تمام مطالبات ومعاملات میں اس کے احکام وقوانین پر عمل کرنے کا مکلف ہے۔ دنیا میں اس کی زندگی کا یہی مقصد اللہ تعالیٰ نے متعین کیا ہے تاکہ وہ آخرت میں اللہ کی رضا حاصل کرسکے۔ کارِخلافت کی انجام دہی اور اقامت دین کی جدوجہد کا بھی آخری مقصود یہی ہے کہ آخرت میں وہ اپنے مالک کے سامنے سرخ روہو، مالک اپنے بندے سے خوش ہو اور اس کو اپنے فضل وکرم سے نوازے۔
اس مسئلے پرابھی قرآن واحادیث کی مزید نصوص اور پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن جتنا کچھ لکھا جاچکا ہے اس سے بھی پوری طرح واضح ہوتا ہے کہ رضائے الٰہی کو محض ذریعہ اور وسیلہ قراردے کراس کی اہمیت اور قدروقیمت کو گھٹانا ایک غلط نقطۂ نظر ہے جو قرآن وحدیث کے ناقص مطالعہ کا نتیجہ ہے۔
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کا الگ سے جواب دینے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن آپ کے مزید اطمینان خاطر کے لیے مختصر جوابات دے رہاہوں۔
۱- رضائے الٰہی حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے مولا کی نظر میں وفادار، فرماں بردار اور اس کے فضل وکرم کا مستحق ثابت ہوجائے۔
۲-قیامت میں مومن صالح کی سرخ روئی اس کے چہرے کی تروتازگی، اطمینان قلب، اپنے رب کے سامنے سجدہ ریزی اور فرشتوں کی طرف سے سلام اور جنت کی خوش خبری قیامت میں رضائے الٰہی حاصل ہونے کے حسی مظاہر ہیں اور جنت بھی دراصل رضائی الٰہی کا حسی مظہرہی ہے اور سب سے بڑھ کر دیدارِالٰہی اسی کا حسی مظہرہوگا۔ اس سب سے بڑے حسی مظہر کا ادراک انسان کس طرح کرے گا یہ بات آخرت ہی میں معلوم ہوسکتی ہے۔
۳-جس طرح توحید تمام عقائد واعمال کی اصل الاصول ہے اسی طرح رضائے الٰہی آخرت کی تمام کام یابیوں اور نعمتوں کی اصل ہے۔ جنت کو مقصود بنانا اسی اصل کی ایک فرع ہے۔
۴- رضائے الٰہی کو محض ذریعہ کی حیثیت دینا اور جنت کو مقصود اصلی قراردینا غلط ہے۔ اس خیال کی اصلاح ہونی چاہیے۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ جنت کومقصود بنانا دراصل رضائے الٰہی کو مقصود بنانے کے مترادف ہے تو اس کا خیال صحیح ہے۔ (دسمبر ۱۹۷۴ء،ج۵۳،ش۶)