(۱)میری شادی پردس ماہ گزرچکے ہیں۔ اب مجھے اس بات کا علم ہواہے کہ میری بیوی نے ایک دفعہ میری حقیقی ماں کا دودھ دوسال سے کم عمرکے اندر پیا ہے۔ میری والدہ کاکہنا ہے کہ ایک رات میری ایک چھوٹی بہن ایک طرف سورہی تھی اور دوسری طرف یہ لڑکی جو میری پھوپی کی لڑکی ہے، سورہی تھی۔میری ماں نے غلطی سے اپنی بچی سمجھ کر اس لڑکی کو دودھ پلادیا جس سے میرا نکاح ہواہے۔ براہ کرم حسب ذیل سوالات کے اطمینان بخش جواب ارسال فرمائیے تاکہ میں اس کے مطابق کوئی صحیح قدم اٹھاسکوں اور معصیت ومؤاخذ ے سے محفوظ رہوں۔
(۱) کیا ایک بار اور وہ بھی غلطی سے دودھ پلادینے کی وجہ سے وہ لڑکی میری رضاعی بہن ہوگئی اور نکاح غلط ہوا؟ معلوم ہوا ہے کہ اس امر میں ائمہ کے درمیان اختلاف رائے ہے کہ حرمت رضاعت کس قدر دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔ آپ محض ان کی رائیں نہ بتائیے بلکہ یہ بھی بتائیے کہ آپ کے نزدیک کس رائے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے؟
(۲) میں نے عملاً اس وقت اس لڑکی سے جدائی اختیار کرلی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
(۳) اس جدائی کو شرعی شکل کس طرح دی جائے گی؟ کیا مجھے طلاق دینی ہوگی یا خود بخود طلاق ہوگئی ؟
(۴) مہر ادا کرنے کے بارے میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب
آپ نے جو صورت لکھی ہے اس میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب آپ کی والدہ نے غلطی ہی سے سہی دودھ پلادیا تھا تو انھوں نے نکاح سے پہلے کیوں نہیں کہا اور اب دس ماہ گزر جانے کے بعد کیوں یہ بات کہی ہے؟ یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اب کسی وجہ سے وہ لڑکی ان کو ناپسند ہوگئی اور آپ سے اسے علیحدہ کرنے کے لیے انھوں نے یہ غلط بات کہی ہو۔ اس صورت میں فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ اگر آپ ان کی بات کو صحیح سمجھتے ہیں تب تو رضاعت ثابت ہوجائے گی اور اگر صحیح نہیں سمجھتے ہیں تو محض آپ کی والدہ کے کہنے سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ کیوں کہ ایک عورت کے کہنے سے خواہ وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہو رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ آپ کے خط سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ ان کی بات کو صحیح سمجھ رہے ہیں ـــــاب میں آپ کے سوالات کے مختصر جوابات دیتاہوں۔
(۱) مدت رضاعت میں اگر غلطی سے کسی عورت نے کسی کو ایک بار بھی دودھ پلادیا ہو تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ یہی رائے صحیح ہے۔ اس لیے آپ کی بیوی آپ کی رضاعی بہن ہے اور نکاح غلط ہواہے۔
(۲) آپ نے عملاً اس لڑکی سے جو جدائی اختیار کرلی ہے وہ درست ہے۔
(۳) اس جدائی کو شرعی شکل دینے کے لیے آپ کو طلاق دینی ہوگی۔ خود بخود طلاق واقع نہیں ہوگی۔ آپ کم سے کم دوثقہ گواہوں کے سامنے اپنی بیوی کو طلاق دے دیں یا یہ کہہ دیں کہ میری بیوی چوں کہ میری رضاعی بہن ہیں اس لیے میں ان سے اپنا نکاح فسخ کرتاہوں۔
(۴) خلوت صحیحہ ہوچکی ہو(جیسا کہ قرینہ ہے) تو آپ کو پورا مہرادا کرنا چاہیے۔