(۲) آپ کا جواب ملا۔آپ نے لکھا ہے کہ ایک باربھی دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، یہی رائے صحیح ہے۔ اس سلسلے میں معلوم یہ کرنا ہے کہ جب امام شافعیؒ کی رائے میں پانچ دفعہ دودھ پینے سے اورامام احمدؒ کی رائے میں تین دفعہ دودھ پینے سے رضاعت کا رشتہ قائم ہوجاتاہے اور اس سلسلے میں مسلم کی دوحدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ ایک بار دودھ پینے سے رضاعت کا رشتہ قائم نہ ہوگا تو علمی طورپر یہ بتائیے کہ آپ کے نزدیک امام شافعیؒ یا امام احمدؒ کی رائے کیوں کم زور ہے؟ میں عام طور سے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک پرعمل کرتا ہوں لیکن کیااس کی پابندی ضروری ہے؟
جواب
آپ نے اپنے پہلے خط میں میری رائے پوچھی تھی کہ میرے نزدیک کس رائے پرعمل کرنا بہتر ہے۔ اب آپ نے دوسری باتیں لکھی ہیں اور دلائل طلب کیےہیں۔
ایک بار دودھ پلادینے سے رضاعت ثابت ہوجانے کے مسئلہ میں چند باتیں اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
(۱) مدت رضاعت میں ایک بار بھی دودھ پلادینے سے رضاعت کارشتہ قائم ہو جانے کا قول صرف امام ابوحنیفہؒ کانہیں ہے بلکہ جمہورصحابہ وتابعین کاقول یہی ہے۔ امام مالکؒ کی رائے بھی یہی ہے اور امام احمدؒ کا ایک قول امام ابوحنیفہؒ ومالکؒ کے موافق ہے۔
(۲) جمہورصحابہ وتابعین کے قول کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے
وَاُمَّھٰتُکُمُ الّتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ
(النسا، آیت ۲۳ )
’’اور تم پرحرام ہیں وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہواور دودھ شریک بہنیں۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں صرف دودھ پلانے کا ذکر ہے۔ اس میں کوئی قید لگی ہوئی نہیں ہے کہ ایک بار دودھ ہویا تین باریا پانچ بار یادس بار بلکہ بغیر کسی تحدید کے مطلقاً دودھ پلانے ہی کو حرمت کا سبب قراردیاگیا ہے۔
(۳) ایک متفق علیہ حدیث یعنی جس کو امام بخاریؒ وامام مسلمؒ دونوں ہی نے روایت کیاہے، وہ یہ ہے
ویحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔
’’رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
اس حدیث میں بھی کوئی قیدلگی ہوئی نہیں ہے۔ آیت اور حدیث کے مطلق حکم میں قیدلگانے یا کوئی تحدید ثابت کرنے کے لیے مضبوط، غیرمشتبہ اور صریح دلیل شرعی کی ضرورت ہے اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک کے لیے تو فی الواقع کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ باقی رہیں وہ حدیثیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک یادوبار دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی وہ ایک طرف تو صحت کے اس درجہ پرنہیں ہیں کہ ہم ان سے قرآن کے مطلق حکم میں قیدلگاسکیں اور دوسری طرف ان حدیثوں میں یہ صراحت بھی نہیں ہے کہ کتنی بار دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوگی۔ فوراً سوال پیداہوتاہے کہ پھر کتنے بار پلانے سے ثابت ہوگی؟ لیکن اس سوال کا جواب حدیث میں موجود نہیں ہے۔ جن لوگوں نے تین بار کی تحدید کی ہے محض اپنے استنباط سے کی ہے، حدیثوں میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہ حدیثیں مبہم ہیں، واضح نہیں ہیں۔ ایسی حدیثوں سے قرآن اور متفق علیہ حدیث کے مطلق حکم کو مقید کرنا صحیح نہیں ہے۔
(۴) حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ ایک بار دودھ پلانے سے رضاعت کی نفی جس حدیث میں ہے وہ منسوخ ہے۔
صرح بنسخہ ابن عباس رضی اللہ عنھما حین قیل لہ ان الناس یقولون ان الرضعۃ لا تحرم فقال کان ذلک ثم نسخ وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال آل أمرالرضاع الی ان قلیلہ وکثیرہ یحرم۔
(فتح القدیرج۳ مطبوعہ مصر کتاب الرضاعۃ)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے منسوخ ہونے کی صراحت کی ہے۔جب ان سے کہاگیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک بار دودھ پینے سے رضاعت قائم نہیں ہوتی تو انھوں نے کہا یہ حکم پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ دودھ پلانے کا آخری حکم یہ ہے کہ اس کی قلیل وکثیر ہرمقدار سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔‘‘
یہ دلائل ہیں جن کی بناپر میری رائے یہ ہے کہ جو لوگ پانچ بار یا تین بار کی قیدلگاتے ہیں ان کی رائے کم زور ہے۔ غیرمشتبہ بات یہی ہے کہ ایک بار دودھ پلانے سے بھی رضاعت کارشتہ قائم ہوجاتاہے۔
اخیر میں اتنی بات اور عرض کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کے قول کو چھوڑنے کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ آپ اپنی والدہ کے قول کو چھوڑنا نہیں چاہتے، ورنہ اگر آپ ان کے قول کی تصدیق نہ کریں تو محض ان کے کہنے سے رشتہ رضاعت ثابت نہ ہوگا۔ آپ کی مشکل یہ ہے کہ دودھ پینے کی تصدیق بھی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے حکم سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ (مئی ۱۹۷۲ء ج۴۸ ش۵)