سترعورۃ کا مسئلہ

(۱) ستر کے لغوی معنی کیاہیں ؟ قرآن پاک میں ستر کا بیان ہےیا نہیں ؟ (۲) مردوں کے ستر کے حدود کیاہیں ؟ (۳) عورتوں کے ستر کے حدود کیا ہیں ؟ (۴) ساتر کسےکہتے ہیں ؟ جسم کے کسی حصہ کا محض ڈھک جانا، یا جسم کے کسی حصہ کا اتنا ڈھک جانا کہ اس کے نشیب وفراز کا پتہ نہ چلے؟ (۵) موجودہ دور کے کیمیاوی ریشوں سے تیارکیے ہوئے وہ باریک کپڑے جن کی کئی تہوں سے بھی جسم جھلکتا رہتاہے کیا ان کو’ساتر‘ کہاجاسکتا ہے؟ (۶) وہ موٹے اور دبیز لیکن تنگ کپڑے جن سے جسم کا قابل اخفا حصہ اور نمایاں ہوجائے کیاساتر کہا جائے گا؟ (۷) پتلون کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (۸) مردوں کی قمیص کو کتنا لمبا ہونا چاہیے؟ اتنی اونچی قمیص جو ناف یاکمرتک ہو ان کی شرعی حیثیت کیاہے؟ (۹) آج کل جس قسم کی تنگ او ر چست ٹیڈی پتلونیں رائج ہیں جس میں پشت اورسامنے کا حصہ شرم ناک حد تک نمایاں رہتا ہے کیا ان کو ستر پوش کہاجاسکتا ہے؟ (۱۰) ایسی پوشاک جو کسی شرعی امر میں قباحت پیدا کرے مثلاً تنگ پتلون پہن کر ڈھیلے سے استنجانہ کرسکنا یا صحیح طورپر نہ بیٹھ سکنے کے سبب پورا پیشاب نہ خارج ہونا اورپھر کپڑے میں بوند ٹپکنا، اس قسم کی پوشاک کی شرعی حیثیت کیاہے؟

جواب

(۱) ستر (س کے زبر کے ساتھ) یہ لفظ فعل سَتَرَ کامصدر ہے جس کے معنی ہیں چھپانا، ڈھانکنا۔ اسی کا اسم فاعل ’ساتر‘ ہے جس کے معنی ہیں چھپانے والا، ڈھانکنے والا۔ ستِر (س کے زیر کے ساتھ) اسم ہے جس کے معنی ہیں چھپانے والی چیز یعنی جس سے کوئی چیز چھپائی جاسکے۔ اسی معنی کے لحاظ سے اس پردے کو ستر کہتے ہیں جو دروازے پرلٹکایاجاتاہے اور اسی معنی کے لحاظ سے ’ امرأۃ مستّرۃ‘ پردہ نشین عورت کو کہتے ہیں۔ اس اسم کے ایک اور معنی شرم وحیا کے بھی ہیں، جیسے رجل ستیراور امرأۃ ستیرۃ  یعنی پاک دامن وباحیا مردوعورت۔

جسم کا وہ حصہ جس کو ڈھانکنا فرض ہے اس کے لیے عربی میں ’عورۃ‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے او ر لفظ ستر کے ساتھ ملا کر فقہا اسی کو سترعورۃ کہتے ہیں اور مردوزن کی صنفوں کے لحاظ سے عورۃ الرجل اور عورۃ المرأۃ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یعنی مرد اور عورت کے جسم کا وہ حصہ جس کو چھپانا فرض ہے۔ اختصار کے لیے مضاف الیہ یعنی عورۃ کے لفظ کو حذف کرکے صرف’ستر‘ استعمال کیاجاتا ہے۔ قرآن میں اس کےلیے سوءات اور عورات کے دولفظ استعمال کیے گئےہیں۔ سوءات کا واحد سوءۃ اور عورات کا واحد عورۃ ہے۔ سوءۃ کےلفظی معنی مایسوء ظھورہ کے ہیں یعنی سوءۃ ہرایسی چیز کو کہتے ہیں جس کا ظہو رانسان کے نزدیک ناپسندیدہ اور مکروہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں ہابیل وقابیل کے قصے میں اسی معنی کے لحاظ سے مقتول کی لاش کے لیے ’سوءۃ‘ کا لفظ قرآن میں استعمال ہواہے۔

فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَہٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَۃَ اَخِيْہِ۝۰ۭ

(المائدہ۳۱)

’’پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگاتا کہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔‘‘

قتل کی ہوئی لاش کاظہور خود قاتل کو بھی ناپسند ہوتاہے اور دوسرے دیکھنے والوں کے لیےبھی اس کا منظر ناپسندیدہ اورغم انگیز ہوتاہے۔

قرآن کی وہ آیت جس میں سوءۃ   کا لفظ براہ راست مسئلہ لباس وستر سے متعلق ہے یہ ہے

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۲۶                                                             (الاعراف۲۶)

’’ اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے جسم کی حفاظت اورزینت کاذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقویٰ کالباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے شاید کہ وہ لوگ اس سے سبق لیں۔ ‘‘

سوءۃ کا لفظ عورۃ کے معنی میں بھی مستعمل ہے اور فحش قول وفعل کے معنی میں بھی۔ لسان العرب میں ہے السوءۃ العورۃ والفاحشۃ (قابل اخفا اور فحش قول وفعل) اسی طرح سوءۃ کے معنی شرم گاہ کے بھی ہیں۔ السوءۃ فرج الرجل والمرأۃ  (مردوعورت کی شرم گاہ )۔ اس آیت میں یہ لفط عورۃ کے معنی میں استعمال کیاگیا ہے۔ شرم وحیا کے فطری داعیہ ہونے اوراس معاملہ میں اسلامی تعلیم کے مزاج اوررخ کو سمجھنے کے لیے سورۂ الاعراف کی آیت ۱۹ تا ۳۳ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اوپر کی آیت ۲۶ میں ان مقاصد کی وضاحت کی گئی ہے جن کے لیے انسان کو لباس پہننے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس میں لباس کی جن ضرورتوں اورمقصدوں کاذکر ہے وہ تین ہیں۔ سب سے پہلی اخلاقی ضرورت ہے یعنی یہ کہ انسان اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپائے اور ڈھانکے۔ اس کی طرف سوءات کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے۔ اور اس کو مقدم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ لباس پہننے کا اولین واہم ترین مقصد شرم وحیا کی حفاظت اور اپنے اخلاق کو بگاڑسے بچانا ہے۔ دوسری ضرورت طبعی ہے یعنی یہ کہ انسان کے لیے اس کا لباس پورے جسم کو سردی وگرمی سے بچانے اور زینت کاذریعہ ہو۔ اس کی طرف ریش کے لفظ سے اشارہ کیاگیا ہے۔ ریش کے ایک معنی ’پرندوں کے پر‘ ہیں۔ ان کے لیے پر موسمی اثرات سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں اور زینت کابھی۔ تیسری ضرورت تقویٰ ہے۔ مومن ومسلم انسان کے لیے اس کی جو اہمیت ہے وہ ظاہر ہے۔ یہ لباس پہننے کا تیسرا مقصد ہے۔ وَلِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ کے ٹکڑے میں اس کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ ان مقاصد کو سامنے رکھ کر ہم لباس کی تین قسمیں کرسکتے ہیں 

(الف) لازمی لباس جو جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپائے۔

(ب) تکمیلی لباس جو ایک طرف جسم کو گرمی وسردی سے بچائے اوردوسری طرف وہ جسم کے لیے زینت بھی بنے۔ یعنی پورے جسم کا لباس جس سے حفاظت بھی حاصل ہوتی ہے اور زینت بھی۔

(ج) لباس تقویٰ جوساتر اورمحافظ جسم بھی ہو اور حدود شریعت کے اندر بھی ہو۔ حدود شریعت سے مراد یہاں وہ حدود ہیں جو لباس کے بارے میں مقرر کی گئی ہیں۔ مثلاً ریشم کا لباس مردوں کے لیے ممنوع قرار دیاگیا ہے۔ اب اگر کوئی مرد ریشم کا لباس پہنے تووہ لباس تقویٰ نہ ہوگا۔ کیوں کہ وہ حدود شریعت سے باہر ہوگا۔ یا عورتوں کو حکم دیاگیا ہے کہ وہ اپنے گریبانوں پراپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالیں۔ اس کا بڑا مقصد یہ ہے کہ ان کے سینوں کے ابھار نمایاں نہ ہو۔ اب اگر کوئی عورت ساتر لباس تو پہنے لیکن اپنے سینوں پر دوپٹے کاپلو نہ ڈالے تو وہ لباس تقویٰ نہ ہوگا۔ کیوں کہ وہ ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ یامثال کے طورپر لباس شہر ت سے منع کیاگیا ہے(یعنی وہ لباس جو خدا سے غافل، مغرور ومتکبر لوگ فخر ومباہات کے لیے پہنتے ہیں )، اب اگر کوئی مسلمان ایسا لباس پہنے تو وہ ساتر تو ہوسکتا ہے لیکن لباس تقویٰ نہ ہوگا۔

عورات کالفظ سورۂ نور کی اس آیت میں استعمال ہواہے

اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ۝۰۠                   (النور۳۱)

’’اور ایسے بچے جو ابھی عورتوں کے بھید سے ناواقف ہیں۔ ‘‘

جن لوگوں کے سامنے عورتوں کو اپنا بنائو سنگار ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں وہ بچے بھی ہیں جو ابھی صنفی معاملات سے ناواقف ہوں۔ ایسے تمام لوگوں کی فہرست جاننے کے لیے سورۃ النور کی آیت ۳۱ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میں نے ’عورات‘ کے حوالے کے لیے اس کا صرف ایک ٹکڑا یہاں نقل کیاہے۔

(۲) مردوں کے ستر کی حد زیر ناف سے گھٹنے تک ہے۔ فقہاء احناف کے نزدیک ناف ستر میں داخل نہیں ہے۔ لیکن گھٹنا ستر میں داخل ہے۔ ان اعضا کو بیوی کے سوا کسی اور کے سامنے کھولنا اور برہنہ کرنا حرام ہے۔ الا یہ کہ بحالت ضرورت اور بقدر ضرورت شریعت نے انھیں کھولنے کی اجازت دی ہو۔ مثلاً طبی ضرورت سے کسی ڈاکٹر یا طبیب کے سامنے کھولنا۔ ستر عورۃ فرض ہے اور کشف عورۃ حرام ہے۔

قرآن مجید میں مردوں کے ستر کی حد بیان نہیں کی گئی ہے۔ اس کی تعیین احادیث او ر فقہا کے استنباط سے ہوتی ہے۔ فقہاء احناف نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے وہ یہ ہیں 

فانما اسفل من سترہ الی رکبتہ من عورتہ۔  (مسنداحمد)

’’ بے شک مرد کی ناف کے نیچے سے اس کے گھٹنے تک اس کا ’ستر‘ ہے۔‘‘

دارقطنی کی ایک طویل حدیث میں ہے

فانما تحت السرہ الی الرکبۃ من العورۃ۔

’’بے شک زیر ناف سے گھٹنے تک عورۃ ہے(یعنی جسم کا وہ حصہ جس کو ڈھانکنا فرض ہے۔‘‘

متعدد احادیث میں ران کے ستر ہونے کی الگ سے صراحت کی گئی ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا علی لا تبرز فخذک ولا تنظرالی فخذ حی ولامیت۔                                  (ابودائود، ابن ماجہ، حاکم، بزار)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے علی! اپنی ران نہ کھولو اور نہ کسی زندہ یامردہ کی ران پرنظر ڈالو۔‘‘

عن ابن عباس رفعہ الفخذ عورۃ                ( جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)

’’ابن عباس ؓ نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ ران سترہے۔‘‘

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر علی جرھد وفخذ جرھد مکشوفۃ فی المسجد فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاجرھد غط فخذک فان الفخذ عورۃ۔

(مسند احمد)

’’رسول اللہ ﷺ جرہد کے پاس سے گزرے اور مسجد میں ان کی ران کھلی ہوئی تھی تو حضور ﷺ نے فرمایا اے جرہد! اپنی رات ڈھانک لو اس لیے کہ ران ’ستر‘ ہے۔‘‘

عن علی قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الرکبۃ من العورۃ۔

(تفسیر مظہری ج ۳ ص۳۴۵)

’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ گھٹنا ستر میں داخل ہے۔‘‘

امام احمد نے ’مسند ‘ میں، امام بخاری نے ’تاریخ‘ میں اور حاکم نے ’مستدرک‘ میں ایک حدیث روایت کی ہےکہ ایک صحابی حضرت معمرؓ اپنی ران کا ایک کنارہ کھولے ہوئےتھے۔ حضورﷺ ادھر سے گزرے تو آپ نے حکم دیا کہ اے معمرؓ ! اپنی ران چھپالو۔ اس لیے کہ ران ’عورۃ‘ ہے۔ اس حدیث سےبھی احناف استدلال کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ ظاہر ہے کہ حضرت معمرؓ گھٹنے کے قریب ہی ران کاایک کنارہ کھولے ہوئے ہوں گے۔ اب اگر گھٹنے کو کھلا رکھنا جائز قراردیا جائے تو ران کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور کھلے گا۔

اس تفصیل کے ساتھ دوباتیں اورذہن نشیں رکھیے۔ ایک یہ کہ مردوں کے ستر کی یہ تمام حدود ائمہ فقہ کے نزدیک متفقہ نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان اختلافات ہیں۔ ہم فقہ حنفی کے قول کو زیادہ محتاط اورقابل ترجیح سمجھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اختلاف مذاہب ودلائل کی وجہ سے فقہ حنفی میں بھی ستر کی دوقسمیں ہیں -غلیظہ اور خفیفہ۔ مردوں کے ستر میں صرف قبل ودبرسترغلیظ ہیں اور باقی اعضا ستر خفیفہ۔ اس تقسیم کی وجہ سے کشف عورۃ کی حرمت ومعصیت میں فرق کرنا ہوگا۔ قبل ودبر کو کھولنا حرام اورگناہ کبیرہ ہوگا اور ستر کے دوسرےاعضا یعنی ران اور گھٹنے کو کھولنا مکروہ اورگناہ صغیرہ ہوگا۔

(۳) راقم الحروف کےمطالعہ کی حدتک عورتوں کے حدود ستر کی قرآن میں صراحت نہیں ہے۔ ان کے ستر کی حدود بھی احادیث اور فقہا کے استنباط سے متعین ہوتی ہیں۔ سورۃ النور کی آیت وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا (اور اپنی آرائش وزیبائش نہ دکھائیں بجز اس کے جو ظاہر ہوجائے) سے بھی فقہا نے استنباط کیاہے۔ احادیث اور فقہا کے استنباط سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے چہرے، گٹوں تک دونوں ہاتھ اور دونوں قدم کے سوااس کا پورا جسم سترہے۔ یہاں تک کہ اس کے بال بھی ستر میں داخل ہیں۔ میں وہ احادیث یہاں نقل کرتاہوں۔

عن عبداللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان۔                        (ترمذی ابواب الرضاع ج۱ ص۱۵۱ مطبوعہ ہند)

’’عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہےکہ نبیﷺ نے فرمایا عورت ’عورۃ‘ ہے۔ تو جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتاہے۔‘‘

استشراف کے لفظی معنی پیشانی پرہاتھ رکھ کر آڑکرکے، نظر اٹھاکر کسی چیز کو بغور دیکھنے کےہیں۔ میں نے یہاں اس کا مفہوم ’’تاک میں لگ جانا‘‘ سے ادا کیاہے۔ اس حدیث میں نفس عورت کو قابل اخفا وجود قراردیاگیاہے۔ اور راقم الحروف کاخیال ہے کہ شاید اسی حدیث کو سامنے رکھ کر مردوں کے مقابلے میں صنف لطیف کے لیے اردو میں عورت کالفظ وضع کیاگیا ہوگا۔ دوسری احادیث میں عورت کے چہرے اور گٹوں تک دونوں ہاتھوں کو ستر سے خارج کردیا گیا۔

روی ابودائود مرسلا ان الجاریۃ اذا حاضت لم یصلح ان یری منھا الا وجھھا ویدیھا الی المفصل۔                                (تفسیر مظہری ج۳ ص ۳۴۵)

’’ابودائود نے مرسلاً روایت کیاہے کہ لڑکی جب بالغ ہوجائے تو جائز نہیں ہے کہ اس کے چہرے اورگٹوں تک دونوں ہاتھوں کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی دے۔‘‘

حضرت اسماءؓ کو باریک کپڑے پہنے ہوئے دیکھ کر حضورؐ نے فرمایا

یااسماء ان المرأۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح ان یری منھا الا ھذا وھذا واشارإلی وجھہ وکفیہ۔                                                   (جمع الفوائد بحوالہ ابودائود)

’’اے اسماء! عورت جب بالغ ہوجائے تو جائز نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے بجز اس کے اور اس کے، حضورؐ نے اپنے چہرے اورکفین کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘

لایقبل اللہ صلوٰۃ حائض الا بخمار۔                           (ترمذی، ابودائود)

’’اللہ کسی بالغ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہواکہ عورتوں کے بال بھی ستر میں داخل ہیں۔

(۴) ’ساتر‘ لغوی اور فقہی معنی کے لحاظ سے تو اسی لباس کو کہیں گے جو جسم کو اس طرح ڈھانک دے کہ جسم اوراس کا رنگ دکھائی نہ دے۔ اس طرح کا لباس پہن کرکوئی مرد یا عورت نماز پڑھے تو اس کی نماز ادا ہوجائے گی لیکن جیسا کہ آپ نے اپنے پہلے سوال کے جواب میں پڑھا فقہی لحاظ سےہرساتر لباس نہ تو تکمیلی ہوتاہے اور نہ اسے لباس تقویٰ کہاجاسکتا ہے۔ اگر عورت کوئی ایسا چست لباس پہنے ہوئے ہے جو اس کے جسم کے پرکشش حصوں کو نمایاں کررہاہے تو فقہی لحاظ سے خواہ اس پر’ساتر‘ صادق آرہاہو، وہ لباس تقویٰ ہرگز نہیں ہے۔

(۵) اس سوال کا جواب اوپر گزرچکا۔ آپ نے حضرت اسماءؓ کی حدیث میں پڑھ لیا کہ حضورﷺ نے ان کے باریک لباس کو جس سے جسم جھلک رہاتھا ساتر قرارنہیں دیا۔ اس طرح کالباس نہ لغوی معنی کے لحاظ سے ساتر ہے اور نہ فقہی معنی کے لحاظ سے۔

(۶) جیساکہ اوپر گزرا اگر اس سے جلد اوراس کا رنگ جھلک نہ رہا ہو تو فقہی لحاظ سے وہ ساتر ہے، لیکن وہ تقویٰ کالباس نہیں ہے۔

(۷) پتلون اگرشرعی حدود کے اندر ہوتو اس کے استعمال پراسلامی شریعت معترض نہ ہوگی۔ کیوں کہ پتلون اب یورپ کے عیسائیوں کا شعار باقی نہیں رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں استعمال کی جارہی ہے۔

(۸) مرد اگر صرف پاجامے پہن کر گھومتے پھریں تو وہ کشف عورۃ کے مجرم نہ ہوں گے۔ اس لیے کہ ان کا ستر ڈھکا ہواہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر گزرا شریعت نے جن مقاصد کے پیش نظر لباس پہننے کاحکم دیا ہے وہ اس سے پورے نہیں ہوں گے۔ احادیث سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے جس طرح تہمد اور پاجامے کے طول کی حد نصف ساق یازیادہ سے زیادہ ٹخنوں کے اوپر تک مقرر کی ہے اسی طرح قمیصوں کے طول کو بھی اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن یہ کہ قمیص کتنی چھوٹی ہوسکتی ہے اس کے بارے میں مجھے ابھی تک کوئی حدیث نہیں ملی ہے۔ ویسے جہاں تک میرے فہم کاتعلق ہے قمیصوں کا طول کم سے کم گھٹنوں تک ہونا چاہیے۔

(۹) اس کا جواب بھی اوپر آچکا۔ فقہی لحاظ سے وہ ساتر ہوں گی لیکن ان پر لباس تقویٰ کا اطلاق نہ ہوگا۔ آپ ٹیڈی پتلونوں سے گھبرائے ہوئے ہیں حالاں کہ اب تو جیسا کہ باوثوق ذریعہ سے معلوم ہواہے ٹیڈی شلواروں اورٹیڈی جمپروں کی وبا آئی ہوئی ہے۔ دین دار اور شریف گھرانوں کی نوجوان ناکتخدا اورشادی شدہ لڑکیاں اتنے چست لباس پہن رہی ہیں جنہیں صرف فقہی لحاظ سے ساتر کہاجاسکتا ہے۔ یعنی اس میں نماز ہوجاتی ہے لیکن لباس کے اخلاقی مقصد اورشرم وحیا سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہاہے۔ دین دار والدین جو اپنی اولاد کے لباس سے اعراض برت رہے ہیں معلوم نہیں وہ خدا کو کیاجواب دیں گے؟ اس وبا کو روکنے کی اپنی سی پوری کوشش کرنی چاہیے تاکہ ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکیں۔

(۱۰) شرعی حیثیت سے ایسی پوشاک ناجائز اورقابل ترک ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسی پوشاک وہی مسلمان پہن رہے ہیں جو طہارت ونجاست اورنماز سب سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان پر طہارت ونجاست اورنماز کی اہمیت واضح کی جائے۔      (جون ۱۹۶۹ء ج ۴۲ ش۶)