سحروساحری اور چند دوسرے مسائل

۱-بعض افراد جب نامعلوم اسباب کی وجہ سے عجیب وغریب اور حیرت انگیز حرکتیں کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ اس پر شیطان اورجن وغیرہ کاسایہ ہوگیا ہے۔اسی طرح بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص پرفلاں بزرگ کی روح مسلط ہوجاتی ہے۔ میں اس کی بالکل قائل نہیں ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وغیرہم کے زمانے میں ہمیں اس طرح کی چیزیں نہیں ملتی ہیں۔ آپ بتائیے کہ اس کا کہیں ثبوت ہے؟ کیا ہماری رہ نمائی کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول کافی نہیں ہیں ؟

۲-جادو کے بارے میں بھی لوگ بہت کچھ کہتے ہیں۔ بتائیے کہ جادو کی کوئی حقیقت ہے؟

۳- کیا رسول اکرمؐ پر جادو کیاگیا تھا اور کیا معوذ تین اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں ؟

۴-تعویذ گنڈے کا بھی ایک جال پھیلا ہواہے اور یہ بھی ایک بڑا کاروبار بن گیا ہے۔ کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟

جواب

ان چارسوالات کے جواب سے پہلے مناسب ہے کہ تین باتیں واضح کردی جائیں۔ ایک یہ کہ مسلمان کے لیے اصل دلیل اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہے جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے ’’کیا ہماری رہ نمائی کےلیے کتاب اللہ اور سنت رسول کافی نہیں ہیں ؟‘‘ بے شک کتاب وسنت ہماری رہ نمائی کے لیے کافی ہیں۔ جو باتیں ان سے ثابت ہوں گی وہی صحیح ہوں گی اور جوان دونوں سے الگ اور ان کے خلاف ہوں گی وہ غلط ہوں گی۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک سوال کسی چیز کے وجود کا ہے۔ یعنی یہ کہ وہ حقیقت میں موجود بھی ہے یا نہیں ؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ مسلمان کو اس چیز کےبارے کیا رویہ اختیارکرنا چاہیے؟ تیسری بات یہ واضح کرنی ہے کہ کسی شخص کو جو نفع یا نقصان بھی پہنچتا ہے وہ اللہ کی مشیت سے پہنچتا ہے۔ وہ نہ چاہے تو کوئی چیز نہ کسی کو نفع پہنچاسکتی ہے اورنہ نقصان۔ نفع وضرر کا اصل اختیاراسی کے دست قدرت وحکمت میں ہے۔
ان تین باتوں کو سامنے رکھ کر اپنےہر سوال کے بارے میں میرا جواب پڑھیے۔
۱-آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن یا صحیح احادیث میں ہمیں اس چیز کا ثبوت نہیں ملتا جس کو لوگ شیطان،جن اور بھوت پریت کا سایہ کہتے ہیں۔ البتہ لوگ اس کے بارے میں اپنے مشاہدات وتجربا ت بیان کرتے ہیں۔ شیطان کا وجود بھی ہے اور جنات کی بھی ایک مستقل مخلوق موجود ہے۔ ان میں بھی اچھے اور برے ہر طرح کے جن ہوتے ہیں۔ اسی طرح روحیں بھی اچھی اور بری ہوتی ہیں لیکن یہ بات کہ شیطان یا جن یا بری روح انسان پرمسلط ہوکر اس کو اپنا معمول ومحکوم بنالیتی ہے قرآن اور احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی بات پیش آئے تواصل سوال یہ ہےکہ مسلمان کو اس کے دفعیہ کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں سب سے پہلے اس کی تحقیق کرنی چاہیے کہ کہیں یہ کوئی بیماری یا جعل سازی تو نہیں ہے۔اگر یہ ثابت ہوجائے کہ نہ بیماری ہے نہ جعل سازی تو پھر اس کے دفعیہ کے لیے جائز تدبیریں اختیارکی جاسکتی ہیں۔ پیشہ ورعالموں کے چکر میں پھنس کر کوئی ایسی تدبیرنہ کرنا چاہیے جو شرعاً ناجائز ہے۔
کسی بزرگ کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی روح کسی انسان پرمسلط ہوکر اس کو اذیت پہنچاتی ہے اس بزرگ کی سخت توہین ہے۔ کسی پاک روح کا یہ کام نہیں ہوسکتا۔
۲-آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ سحراور جادو کی مطلق نفی صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ساحروں کے مقابلے کا ذکر قرآن میں کئی جگہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ سورۂ البقرہ آیت ۱۰۲ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہودیوں نے توریت پرعمل ترک کرکے شیاطین کے سکھائے ہوئے سفلی علوم کی پیروی شروع کردی تھی جن میں ایک سحروساحری کا علم بھی تھا۔ جادوکی کئی اقسام ہیں۔ ان میں ایک قسم یہ ہے کہ اس کے ذریعے کسی انسان کو جسمانی امراض وآلام میں مبتلا کیاجاسکتا ہے۔ اس قسم کے وجود یا اس کی حقیقت کا انکار صحیح نہیں ہے۔ ہمارے جاننے کی اصل بات یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں جادو کا حکم کیا ہے؟ اور یہ کہ کسی مسلمان پرجادو کیا گیا ہوتواس کو کیا کرنا چاہیے؟ اسلامی شریعت میں اس علم کا سیکھنا سکھانااور کسی پرجادو کرنا حرام ہے اور یہ ایک ایسی معصیت ہے جو انسان کو کفر تک پہنچاسکتی ہے۔ اگرتحقیق سے یہ ثابت ہوگیا ہوکہ کسی پر جادو کیاگیا ہے تو خود اس مریض کو اور اس کے رشتہ داروں کو اس کےدفعیہ اور علاج کے لیے نہ پیشہ ور عالموں کے پاس جانا چاہیے اور نہ کوئی ایسی تدبیر کرنا چاہیے جو شریعت میں ناجائز ہو بلکہ اس کےدفعیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور دعائوں کی تدبیر اختیارکرنا چاہیے۔ نیز جائز اور صحیح تدابیر اختیار کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔تحقیق کی بات میں نے اس لیے لکھی ہے کہ جاہل اور وہمی لوگ عموماً بعض خاص قسم کی بیماری کو جادو کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں۔
۳-آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ علماء کا ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرسحر کیے جانے کا انکار کرتاہے۔لیکن اس کے بارے میں چوں کہ صحیح احادیث موجود ہیں اس لیے عام طورسے علماء وفقہاء اس کے قائل ہیں کہ حضورؐ پر سحرکیاگیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا اثر اتنا پڑا تھا کہ حضورؐ کو کچھ تکلیف لاحق ہوگئی تھی۔ جس طرح حضورؐ کو زہر دیاگیا تھا یا بعض دوسرے جسمانی عوارض لاحق ہوئے تھے اسی طرح آپؐ پرجادو بھی کیاگیا تھا۔ انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی امراض وآلام سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ معوذ تین کے بارے میں کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں البتہ اس کے بارے میں ضعیف حدیثیں موجود ہیں۔ صحیح احادیث سے اتنا ثابت ہے کہ آپ بیماری کی حالت میں ان سورتوں کو پڑھ کر دم کیا کرتے تھے، نیز یہ کہ سونے کے وقت بھی معوذ تین اور سورۂ اخلاص پڑھ کر اپنے ہاتھوں پردم کرتے اور پھر ان ہاتھوں کو چہرہ مبارک اورجسم کے دوسرے حصوں پرپھیرتے تھے۔
۴-آپ کے چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ آیات قرآنی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائوں کو پڑھ کر مریض پردم کرنا جائز بلکہ بعض صورتوں میں مسنون ہے۔ اسی طرح آیات اور دعائوں کو لکھ کر تعویذ کی شکل میں استعمال کرنا بھی جائز ہے۔لیکن تعویذ گنڈے اورجھاڑ پھونک کو پیشہ بنانا غلط ہے۔آج کل جو لوگ اس کو ذریعۂ معاش بناتے ہیں ان میں ننانوے فی صدی کتاب وسنت سے ناواقف ہوتے ہیں اوران میں تقویٰ اور پرہیزگاری بھی نہیں پائی جاتی۔ اسی لیے تعویذگنڈے اورجھاڑپھونک میں ایسی چیزیں بھی شامل ہوگئی ہیں جو شریعت میں ناجائز اورحرام ہیں۔ اس صورت حال میں اس کے استعمال سے بچنا ہی بہتر ہے۔ (دسمبر ۱۹۶۸ء، ج ۴۱،ش۶)