جواب
جب کسی مسئلے کا فیصلہ اﷲاور اس کے رسول نے بالکل صاف اورصریح نصوص میں کردیا ہو تو پھر اسی مسئلے میں ان نصوص کو چھوڑکر دوسری آیات واحادیث سے، جو دراصل اس خاص مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے وارد نہیں ہوئی ہیں ، اپنے مطلب کے معنی نکالنا اور نصوص قطعیہ کے بالکل خلاف عقیدہ یا عمل اختیار کرلینا درحقیقت انتہائی گمراہی ،بلکہ خدا اور رسول کے خلاف بدترین بغاوت ہے۔ جو شخص علانیہ اﷲ اور اس کے فرمان کے خلاف کوئی مسلک اختیار کرتاہے وہ تو کم تر درجے کی بغاوت کرتا ہے۔ مگر یہ بہت زیادہ بڑے درجے کی بغاوت ہے کہ آدمی اﷲ اور رسول کے فیصلے کے خلاف خود اﷲ اور رسول ہی کے ارشادات کو توڑ مروڑ کر استعمال کرنے لگے ۔یہ کام جو لوگ کرتے ہیں ان کے متعلق ہم کسی طرح بھی یہ فرض نہیں کرسکتے کہ وہ سچے دل سے اﷲ اور اس کے رسول کو مانتے ہیں ۔
یہ سوال کہ سیّدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں یا نہیں ؟اور آپ کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ہم آیت وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ اور آیت یٰبَنِیْ اٰدَمَ اور ایسی ہی دوسری آیتوں کی طرف صرف اسی صورت میں رجوع کرسکتے تھے جب کہ اﷲ اور اس کے رسول نے خاص طور پر اسی سوال کا جواب کسی خاص نص میں نہ دے دیا ہوتا۔ مگر جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیت خاتم النّبیین میں اور نبی ؐ کی طرف سے بکثرت احادیث صحیحہ میں ہم کو خاص طور پر اسی سوال کا واضح جو اب مل چکا ہے تو آیت وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ اور یٰبَنِیْٓ آدَمَ اور ایسی ہی دوسری آیات کی طرف رجوع کرنا، اور پھر ان سے نصوص قطعیہ صریحہ کے خلاف مطالب نکالنا صرف اسی شخص کا کام ہوسکتا ہے جو خدا سے بالکل بے خوف ہوچکا ہو اور جسے یہ بھی یقین نہ ہو کہ کبھی مر کر خدا کے سامنے جواب دہی بھی کرنی ہوگی۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے تعزیرات پاکستان کی ایک خاص دفعہ میں ایک فعل کو بالفاظ صریح جرم قرار دیا گیا ہو او رکوئی شخص اس دفعہ کو چھوڑ کر قانون کی دوسری غیر متعلقہ دفعات کا جائزہ اس غرض سے لیتا پھرے کہ کہیں سے کوئی اشارہ اور کہیں سے کوئی نکتہ نکال کر اور پھر انھیں جوڑجاڑ کر اسی فعل کو جائزثابت کر دے جسے قانون کی ایک صریح دفعہ جرم قرار دے رہی ہے۔ اس طرح کا استدلال اگر دنیا کی پولیس اور عدالت کے سامنے نہیں چل سکتا توآخر یہ خدا کے ہاں کیسے چل جائے گا؟
پھر جن آیات سے یہ لو گ استدلال کرتے ہیں بجاے خود ان کو پڑھ کر دیکھا جائے تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ ان میں سے وہ مضمون آخر کہاں نکلتا ہے جو یہ لوگ زبردستی ان سے نچوڑنا چاہتے ہیں ۔
پہلی آیت جو آپ نے نقل کی ہے ،اس میں جو بات فرمائی گئی ہے ،وہ صرف یہ ہے کہ اﷲاور رسولؐ کی اطاعت کرنے والے انبیاو صدیقین اور شہدا وصالحین کے ساتھ ہوں گے۔ اس سے یہ مضمون کیسے نکل آیا کہ جو لوگ اﷲ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ یا تو نبی ہوجائیں گے یاصدیق یا شہید یا صالح۔ پھر ذرا سورۂ الحدید کی آیت ۱۹ ملاحظہ فرمائیے، اس میں ارشاد ہوا ہے کہ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ۰ۤۖ وَالشُّہَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ ۭ ( الحدید:۱۹)
’’اور جو لوگ ایمان لاے اﷲاور اس کے رسولوں پر،وہی صدیقین اور شہدا ہیں اپنے رب کے نزدیک۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ ایمان کے نتیجے میں جو دولت کسی کو مل سکتی ہے وہ صرف صدیق اور شہید ہوجانے کی ہے۔ رہے انبیا تو ان کی معیت نصیب ہوجانا ہی اہل ایمان کے لیے کافی ہے۔ کسی عمل کے انعام میں کسی شخص کا نبی ہوجانا ممکن نہیں ہے۔ اسی بنا پر سورۂ نسآ ءکی آیت میں فرمایا کہ اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والے انبیا و صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے۔ اورسورۂ حدید کی آیت میں فرمایا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لانے والے خود صدیق اور شہداء بن جائیں گے۔
(ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۲ء)