سورۂ الشوریٰ کی آیت ۲۷ کا تعلق ماسبق آیت سے کیا ہے؟ یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ آیت ۲۷ کا ترجمہ یہ ہے
’’اگر اللہ اپنے سب بندوں کو کھلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کردیتے، مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے،نازل کرتا ہے۔ یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور ان پر نگاہ رکھتا ہے۔‘‘
اس سے پہلے آیت ۲۶ کا ترجمہ یہ ہے
’’وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل وکرم سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے تو ان کے لیے دردناک سزا ہے۔‘‘
اس آیت میں اصلاً مومنین صالحین کو بشارت دی گئی ہے۔ اس کے بعد والی آیت میں کہاگیا ہے کہ اگر اللہ سب بندوں کے لیے رزق وسیع کردیتا تو یہ ہوجاتا۔
اب سمجھ میں نہیں آتا کہ آیت ۲۷کا آیت ۲۶ سے کیا ربط ہے۔ مہربانی کرکے اس الجھن کو دور کیجیے۔
جواب
ربط آیات کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی آیت کا مفہوم اس سے پہلی والی آیت کے مناسب ہوتا ہے۔ دوسری صورت بہت سے مقامات پریہ ہوتی ہے کہ معترضین ومخالفین کے اعتراضات وشبہات اوراتہامات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ کہیں ان کا ذکر کرکے جوابات دیے جاتے ہیں اور کہیں شبہے کا ذکر نہیں ہوتا، صرف تردید یا جواب ہوتا ہے۔ سورۂ شوریٰ کی آیت ۲۷ بھی اسی دوسری قسم میں داخل ہے۔ آیت ۲۴میں مشرکین کے اس اتہام کا ذکر ہے کہ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ پر افترا کرکے قرآن کو کلام اللہ قرار دیا جارہاہے۔ اس اتہام کے جواب اوراتہام لگانے والوں کو توبہ کرنے کی ترغیب ہے اور آیت۲۶میں بھی خطاب مخالفین ہی کی طرف ہے۔ اصلاً وہاں ایمان وعمل صالح کا اجر بیان کرنا نہیں ہے۔ یہ بات وہاں ضمناً معلوم ہوتی ہے۔ اب اس کے بعد آیت ۲۷ آتی ہے۔ یہ درحقیقت مشرکین کے ایک غلط خیال کی تردید ہے۔ ان کا خیال اس آیت میں مذکور نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے مقابلے میں کفار مادی لحاظ سے خوش حال تھے۔ اس کی بناپر ان کا خیال تھا کہ وہ چوں کہ مال دار اور خوش حال ہیں، اس لیے وہی حق پر ہیں اور مسلمان چوں کہ مادی لحاظ سے بدحال ہیں اس لیے خدا ان سے خوش نہیں ہے، ورنہ وہ مخالفین اسلام سے زیادہ خوش حال ہوتے۔ ان کا یہ غلط خیال قرآن کریم میں متعدد مقامات پربیان کیاگیا ہے اور مختلف اسالیب میں اس کی تردید کی گئی ہے۔ یہاں تردید کا جو خاص اسلوب ہے، اس کی بڑی اچھی تشریح تفہیم القرآن میں کی گئی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اسے پڑھ لیں اور پڑھ چکے ہوں تو اب دوبارہ پڑھیں۔ میری اس تفصیل سے امید ہے کہ ربط آیات کے سلسلے میں آپ کی الجھن دور ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (جنوری ۱۹۸۵ءج ۲،ش۱)