ماہ نامہ زندگی بابت ماہ شعبان ۱۴۰۴ھ مطابق جون ۱۹۸۴ء نظر سے گزرا۔ مولانا عنایت اللہ سبحانی اصلاحی کی کتاب علامہ حمیدالدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ پرتبصرہ و تنقید کو پڑھا۔
مولف کتاب نے سورۂ مریم کی آیت وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُہَا۰ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِيًّا۷۱ۚ کی جو تاویل پیش کی ہے، آپ نے اس سے اختلاف کرکے دوسرے قدیم مفسرین ہی کی رائے کو صحیح قراردے کراس کے حق میں دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ آپ کو اس بات کا حق ہے کہ جس تاویل پرآپ کو شرح صدر حاصل ہوجائے اسی کو لیں۔
آیت مذکورہ کی جو تاویل مولف کتاب نے پیش کی ہے وہ علامہ فراہی رحمۃ اللہ علیہ اور صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تاویل ہے۔ ان کے علاوہ قدیم وجدید مفسرین کی رائے وہی ہے جو آپ نے بیان کی ہے۔ لیکن مولانا عنایت اللہ صاحب اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے دیگر مفسرین کی رائے کو ضعیف قراردینے میں جو انداز اختیارکیا ہے، اس کو ان ہی دوبزرگوں کی طرف منسوب کیاجانا چاہیے۔ علامہ فراہی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا امین احسن صاحب نے مفسرین پرجو نقد یا بقول آپ کے ’طنز‘ کیا ہے، قابل افسوس ہے۔ کیوں کہ آپ نے جو احادیث صحیحہ وثابتہ پل صراط کے وجود اور بلااستثناتمام لوگوں کے اس پر سے گزرنے کے ثبوت میں نقل کی ہیں، ان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان احادیث کی رو سے پل صراط کا وجود ثابت ہوتا ہے اوراس پرسے قیامت کے دن تمام انسانوں کا گزرنا بھی مسلم ہے۔ لیکن ایک بات قابلِ غور ہے وہ یہ کہ ان تمام احادیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ قیامت کے دن جہنم پرپل صراط ہوگا اور سبھی انسانوں کو خواہ وہ نیک ہوں یا برے، اس پر سے گزرنے کا حکم دیا جائے گا۔ جو لوگ نیک ہوں گے درجات کے لحاظ سے تیز یا سست رفتار اس پر سے گزرجائیں گے اور جو بدکار ہوں گے وہ جہنم میں گریں گے۔ اس سے زیادہ کوئی بات ان احادیث سے ثابت نہیں ہوتی۔
سورۂ مریم کی آیت مذکورہ میں جو بات کہی گئی ہے وہ احادیث کے مفہوم سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ ’وَارِدُھَا‘ میں وارد لفظ ورود سے اسم فاعل ہے۔ ورود کے معنی گھاٹ پر اترنے کے ہیں۔ جہنم پرورود کا مطلب جہنم میں داخل ہونا ہے۔ احادیث میں پل کے اوپر سے گزرنے کے لیے لفظ’مرور‘ استعمال ہوا ہے۔ ان دونوں لفظوں کے درمیان نہ ظاہری مناسبت ہے اور نہ معنوی۔ دونوں الگ الگ حقیقتوں پردلالت کررہے ہیں۔ ان دونوں لفظوں کے مفہوم میں افراط وتفریط سے کم ازکم ایک حقیقت کا انکار لازم آتا ہے اور اگر ہم ورود کو اپنے حقیقی معنی سے ہٹاکر’مرور‘ کے معنی پہنادیں تو آیات قرآنی کے محل اور نظم میں خلل واقع ہوجاتاہے اس لیے اعتدال کی راہ یہ ہے کہ ان دونوں کو دوالگ الگ حقیقتیں تسلیم کرلیا جائے۔ یعنی احادیث کی روسے پل صراط کا وجود اوراس پرسے تمام انسانوں کا گزرنا برحق مانا جائے اور آیت زیرِ بحث میں ضمیر خطاب کا مرجع انھی مجرمین کو مانا جائے جن کا ذکر آیت ۶۶سے شروع ہواہے اور آیت زیرِ بحث کے کئی آیات کے بعد ختم ہوتاہے۔ اس تاویل کو ماننے سے اختلاف بھی رفع ہوجائے گا اور احادیث کا انکار بھی لازم نہیں آئےگا۔ نیز آیات قرآنی کے نظم ومحل میں بھی خلل واقع نہیں ہوتا۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ آیت مذکورہ کا ماقبل ومابعد سے ربط اوراس کا محل اختصار کے ساتھ بیان کیاجائے، تاکہ مذکورہ بالا تاویل کے سمجھنے میں آسانی پیداہو۔ارشاد ہوتاہے
وَيَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا۶۶ اَوَلَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَـيْـــــًٔـا۶۷ فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّہُمْ وَالشَّيٰطِيْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّہُمْ حَوْلَ جَہَنَّمَ جِثِيًّا۶۸ۚ ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَۃٍ اَيُّہُمْ اَشَدُّ عَلَي الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا۶۹ۚ ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ ہُمْ اَوْلٰى بِہَا صِلِيًّا۷۰ وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُہَا۰ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِيًّا۷۱ۚ ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِـمِيْنَ فِيْہَا جِثِيًّا۷۲(مریم۶۶۔۷۲)
’’اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مرجائوں گا تو پھر دوبارہ زندہ کرکے نکالا جائوں گا؟ کیا انسان کو یہ بات یاد نہیں ہے کہ ہم نے اسے اس سے قبل پیداکیا،حالاں کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ پس تیرے رب کی قسم !ہم ان کو اور شیاطین کوجمع کریں گے۔پھر ہم ان کو دوزانوں بیٹھے ہوئے جہنم کے گرد حاضر کریں گے۔ پھر ہم ہر گروہ سے ان لوگوں کو چھانٹ کرالگ کریں گے جو رحمٰن کے ساتھ سب سے زیادہ سرکشی کرنے والے ہیں۔ پھر اس جہنم میں پڑنے کے سب سے زیادہ حق دار کون ہیں ہمیں خوب معلوم ہے۔ تم میں سے ہرکسی کو اس (جہنم کے گھاٹ) پراترنا ہے۔ یہ تیرے رب کا حتمی فیصلہ ہے۔ پھر ہم متقین کو دورہی رکھیں گے اور ظالموں کو اسی میں دوزانوں بیٹھا چھوڑ دیں گے۔‘‘
ان مذکورہ بالا آیات کے مخاطب کفار ومشرکین ہیں۔ آیت ۷۰ تک جو باتیں ان سے کہی گئی ہیں، غائب کے صیغے میں کہی گئی ہیں۔ غائب کا اسلوب عدم التفات پردلالت کرتاہے۔ گویا مخاطب اس قابل ہے ہی نہیں کہ اس سے بالمشافہ گفتگو کی جائے۔ آیت ۷۱ میں اچانک حاضر کا صیغہ استعمال کرکے مخاطب کیاگیا۔انذار کی آیات میں خطاب،اسلوب زجروتوبیخ، ملامت، دھمکی اور شدت عتاب پردلالت کرتا ہے۔ گویا اب ان کو صاف اور دوٹوک فیصلہ سنادیا گیا کہ تم کو یقیناً جہنم میں جانا ہے۔ تم اس سے ہرگز بچ نہیں سکتے۔ یہ تمہارے رب کا قطعی اور اٹل فیصلہ ہے۔ اس میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ان ہی لوگوں کو سنایا گیا ہے جن کا ذکر آیت ۶۸ میں کیا گیا ہے کہ ’’ہم ان کو اور شیاطین کو جمع کریں گے اور دوزانوں بیٹھے جہنم کے گرد حاضر کریں گے۔‘‘ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو جہنم کے گرد جمع کیا جائے گا وہی جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔
یہاں ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ آیت ۷۲’ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا ‘ میں ’ثم‘ ترتیب کے لیے آیا ہے۔ اس لحاظ سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس ورود کے بعد متقین کو نجات ملے گی لیکن یہ شبہ کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔یہاں ’ثم‘ ترتیب کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ اس کا محل وہی ہے جو ’ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ ہُمْ اَوْلٰى بِہَا صِلِيًّا۷۰‘ میں ’ثم‘کا ہے۔ یہ ’ثم‘ وہاں کے حالات کا تنوع اور بیک وقت دوقسم کے لوگوں کے ساتھ جزا وسزا دینے کو ظاہر کررہا ہے۔ یعنی ایک طرف یہ مجرمین ومعاونین کیفر کردار کو پہنچیں گے اور دوسری طرف متقین کو قیامت کے ہول ناک مناظر اور ترددوپریشانی سے نجات ملے گی۔
دوسرے یہ کہ تنجیہ صرف نجات دینے کے معنی ہی میں نہیں آتا،بلکہ دوررکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور اگر تنجیہ کو نجات دینے کے مفہوم میں لیا بھی جائے تو دور رکھنے کامفہوم بھی اس میں شامل رہے گا اور نجات اس پریشانی وتردو سے، جس کی بناپر وہاں نفسی نفسی کا عالم ہوگا۔
نیز اگر آیت زیرِ بحث میں مخاطب تمام ہی انسانوں کو مانا جائے تو كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِيًّا۷۱ۚ کا ٹکڑا یہاں بے محل معلوم ہوتا ہے۔ اس قسم کا اسلوب ہمیشہ شدت عتاب ہی کے لیے آتا ہے۔ غورفرمائیں کہ تمام انسانوں، بشمول انبیاء ورسل علیہم السلام کے بارے میں خداوند رحیم وکریم کی طرف سے اس قسم کی وعید اور عتاب یا قطعی اور اٹل فیصلہ سنانے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ یہ کون سا موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قطعی اور طے شدہ فیصلے کا اعلان کرے۔اس لحاظ سے بھی یہی بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ آیت مذکورہ میں مخاطب انھیں مجرمین کو مانا جائے جن کا ذکر اس پورے سلسلۂ کلام میں چل رہاہے، تاکہ اس ٹکڑے کا محل بھی سمجھ میں آئے۔
اُولٰۗىِٕكَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ۱۰۱ۙ لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَہَا (الآیۃ) پر بحث کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ ’’انھوں (مولانا اصلاحی صاحب) نے اس طرح کا تصور دیا ہے کہ اہلِ تقویٰ جہنم سے ایسے دور رکھے جائیں گے جیسے دوزخ پرکبھی ان کی نظر بھی نہ پڑے گی۔‘‘انھوں نے نہ یہ بات کہی ہے اور نہ اس کا تصور ہی دیا ہے کہ اہل تقویٰ کی جہنم پرنظر بھی نہ پڑے گی اور ایسا وہ کربھی کیسے سکتے ہیں، جب کہ سورۂ اعراف آیت ۴۶ اور ۴۷ میں صراحت موجود ہے کہ اصحاب اعراف جنت وجہنم دونوں کامشاہدہ کریں گے اور جنتیوں کو سلامتی ومبارک باد پیش کریں گےاورجہنمیوں کو زجروملامت کریں گے۔ رہا ’لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَہَاۚ ‘ کے مفہوم کاسوال تو میں سمجھتا ہوں کہ مولانا امین احسن صاحب نے ٹھیک ہی سمجھا ہے۔ یقیناً جہنم کی ہوا مجرمین ہی کے لیے ہے۔ اہلِ تقویٰ سے اس کانہ کوئی تعلق ہے اور نہ قرآنی آیات میں اس کی کوئی گنجائش ہی ہے۔
آپ نے اپنی بات کو مؤکد کرنے کے لیے وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِمَنْ يَّرٰى۳۶ (النازعات۳۶) اوروَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍؚبِجَہَنَّمَ۰ۥۙ (الفجر۲۳) سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۹۰ۙ (الشعراء۹۰) کی طرف آپ کی نگاہ نہیں گئی۔ اگر وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِمَنْ يَّرٰى میں ’مَنْ ‘ نیک وبددونوں پرحاوی ہے تو وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ سے کس بات کی طرف اشارہ ہے؟ اتنی واضح بات سے آپ کی نظرکیسے چوک گئی۔ ان دونوں آیتوں کو اپنے قول کے حق میں دلیل بنانے کا کیا تک ہے۔ ان دونوں آیتوں پردوبارہ ایک نظر ڈال کر دیکھ لیں کہ ان کا کیا محل ہے اور جہنم کن لوگوں کے لیے قریب لائی جائے گی؟ اگردونوں موقعوں پرآپ مخاطب تمام انسانوں کو مانتے ہیں تو سورۂ شعراء، آیت ۹۰۔۹۱ ملاحظہ فرمائیں وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۹۰ۙ وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَ۹۱ۙ ان صریح اور واضح آیات کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہنم نیکوکاروں اور بدکاروں کے لیے مشترکہ طورپر قریب لائی جائے گی؟
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے مفسرین کرام پرجو نقد کیا ہے اس سلسلے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے’’پل صراط کی بات مفسرین نے نہیں کہی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔‘‘ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پل صراط پرسے تمام انسانوں کے گزرنے کی خبر بیان فرمائی ہے۔ یہ تونہیں فرمایا ہے کہ پل صراط پر سے گزرنا اورجہنم پرورود ایک بات ہے۔ ان دونوں کو گڈمڈ کرنے میں مفسرین نے یا تو قیاس سے کام لیا ہے یا ضعیف تفسیری روایات پراعتماد کیاہے۔
آپ نے قسموں کے باب میں بھی مؤلف کتاب سے اختلاف کرکے تحریر فرمایا ہے کہ ’’تبصرہ نگار کو اس سے اتفاق نہیں۔ کیوں کہ مختلف پہلوئوں کے اعتبارسے ایک الجھن یا سوال کے متعدد جوابات دیے جاسکتے ہیں۔ ‘‘ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ البتہ آپ کا یہ فرمانا کہ ’’اذہان مختلف ہوتے ہیں اس لیے کسی کو کسی جواب سے تشفی ہوتی ہے اورکسی کو کسی دوسرے سے۔متعدد جوابات کو اضطراب قراردینا صحیح نہیں ہے۔‘‘ محل نظر ہے۔ کیوں کہ متعدد جوابات اگر بیک وقت کسی الجھن کو حل کرنے میں معاون ہوں تو بات درست ہے۔ لیکن یہ ہرگز صحیح نہیں ہوسکتا کہ کسی کو کسی جواب سے تشفی ہوتی ہے اور کسی کو کسی دوسرے سے۔ کسی الجھن یاسوال کاجواب دینے میں اس بات کا ہرگز لحاظ نہیں کیا جاتا کہ ہر شخص لازماً تشفی ہی حاصل کرے۔ تشفی اور عدم تشفی کو اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ مطلوب ومقصود جواب کا صحیح اورمدلل ہونا ہے۔دلائل وبراہین کے باوجود اگرکسی کو تشفی نہیں ہوتی تو یہ جواب کے ضعف کی علامت نہیں بلکہ فہم کا قصور ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے جو جوابات دیے ہیں ان میں سے کسی ایک پر بھی انھیں جزم حاصل نہیں تھا۔ اسی لیے انھوں نے مختلف صورتیں پیش کردیں۔ لیکن ان میں سے صحیح اور راجح کون ہے اس پر کلام ہی نہیں کیا۔ عام لوگوں کو ایسے مواقع پر شدید پریشانی کاسامنا کرنا پڑتا ہے کہ پہلی تاویل صحیح مانی جائے کہ دوسری۔ اس چیز کی تعبیر کے لیے مؤلف کتاب نے اضطراب کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ چیز بہرحال مفسرین کے عجز کی علامت ہے۔ جہاں تک علامہ حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کو جس بات پر شرح صدر حاصل ہوااس کو پیش کرتے اور اسے دلائل وبراہین سے ثابت بھی کرتے ہیں۔ یہی بات دراصل مؤلف کتاب نے کہنی چاہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
جواب
ضمنی باتوں سے قطع نظر کرتے ہوئے میں ایک بارپھر عرض کرتاہوں کہ مجھے قدیم وجدید مفسرین کی تفسیر پرشرح صدر کیوں ہے۔یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ پل صراط کے وجود اور اس پر سے تمام انسانوں کے گزرنے کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ اس کا تعلق آپ کے نزدیک سورۂ مریم کی آیت وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُہَا۰ۚ سے نہیں ہے۔اس کی دلیل آپ نے یہ دی ہے کہ آیت میں ’ورود‘کا لفظ ہے اور احادیث میں لفظ’مرور‘۔ آپ نے لکھا ہے
’ورود‘ کے معنی ’گھاٹ پر اترنے‘ کے ہیں۔ جہنم پرورود کا مطلب جہنم میں داخل ہونا ہے۔ احادیث میں پل کے اوپر سے گزرنے کے لیے لفظ ’مرور‘ استعمال ہواہے۔ ان دونوں لفظوں کے درمیان نہ ظاہری مناسبت ہے اور نہ معنوی۔ دونوں الگ الگ حقیقتوں پردلالت کرتے ہیں۔ ‘‘
یہ حقیرعرض کرتاہے کہ ’ورود‘ کے معنی گھاٹ پراترنے کے ہیں۔ لیکن اس آیت میں ورود کا مطلب جہنم میں داخل ہونا نہیں ہے۔اس لیے کہ ’ورود‘ کے معنی صرف داخل ہونے کے نہیں ہیں، بلکہ پانی کے پاس صرف پہنچنے کے بھی ہیں۔ داخل ہونا اس لفظ کے لوازم میں سے نہیں ہے۔ میں عربی لغات اور لغۃ القرآن کی لمبی بحث سے بچنے کے لیے قرآن کریم کی دوآیتیں پیش کرتاہوں۔ سورۂ القصص میں ہے
وَلَمَّا وَرَدَ مَاۗءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ۰ۥۡ (القصص۲۳)
’’اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچاتواس نے اس پر لوگوں کی ایک بھیڑدیکھی جو اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے۔‘‘
ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے کنویں میں داخل ہوئے تھے اور نہ وہ لوگ پانی میں داخل تھے جو اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے۔ اس لیے آیت زیرِ بحث میں قطعیت کے ساتھ یہ مطلب بتانا کہ ’’جہنم پرورود کامطلب جہنم میں داخل ہونا ہے‘‘ صحیح نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ کسی جگہ سے مرور(گزرنے) کے لیے ’ورود‘ لازم ہے جب تک کوئی شخص کسی جگہ واردنہ ہووہ وہاں سے گزرنہیں سکتا۔ وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُہَا۰ۚ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’تم میں سے ہرشخص کو جہنم کے پاس پہنچنا اور پھر پل صراط سے گزرنا ہوگا۔‘‘ اب غورفرمائیے کہ پل صراط سے متعلق احادیث کا سورۂ مریم کی اس آیت سے تعلق ہے یا نہیں ؟ دوسری آیت سورۂ یوسف میں ہے
وَجَاۗءَتْ سَـيَّارَۃٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَہُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَہٗ۰ۭ (یوسف۱۹)
’’اورایک قافلہ آیا پھر اس نے اپنے واردکو بھیجا اوراس نے کنوئیں میں اپنا ڈول ڈالا۔‘‘
اس آیت میں صراحت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جس کنوئیں میں ڈالے گئے تھے وہاں پہنچ کر ’وارد‘ کنوئیں میں داخل نہیں ہوابلکہ اس نے اس میں ڈول ڈالا۔ اس آیت میں ’وارد‘ اس شخص کے لیے استعمال ہواہے جس کو قافلہ والے کسی چشمہ یا کنوئیں پر بھیج دیتے تھے تاکہ وہ پہلے سے پانی کا انتظام کرکے رکھے۔اس تفصیل سے معلوم ہواکہ آپ نے سورۂ مریم کی اس آیت اوراحادیث صراط میں تطبیق دینےکی جو کوشش کی ہے وہ اس وقت صحیح ہوتی جب ’وارد‘ کے معنی صرف داخل ہونے والے کے ہوتے۔
شاہ عبدالقادردہلوی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمہمااللہ نے سورۂ مریم کے اس فقرے کا یہ بالکل صحیح ترجمہ کیا ہے
’’اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر۔‘‘
سورۂ مریم کی آیات کے سیاق وسباق اور نظم آیات کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے بارے میں عرض ہے کہ اس حقیر نے ان کا یہ مطلب سمجھا ہے کہ سلسلۂ کلام روک کر اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اس حقیقت پرمتنبہ اور متوجہ کیا ہے کہ ہر شخص کو جہنم پر وارد ہونا ہے خواہ وہ کافر ہو یا مسلم۔ اس کی تائیدپل صراط کی احادیث نبوی سے بھی ہوتی ہے اور صحابہ وتابعین کے اقوال سے بھی۔ آیت زیرِ بحث ان آیتوں میں ہے جن کے بارے میں صحیح احادیث بھی مروی ہیں، ضعیف روایات بھی اور اقوال صحابہ بھی۔
اس حقیر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کیا صحابہ وتابعین بھی آیات کے محل، سیاق وسباق اور نظم وربط سے ناواقف تھے؟ کیوں کہ اس حقیر کے علم کی حد تک کسی صحابی وتابعی نے ’اِنْ مِّنْكُمْ‘ کے ضمیر خطاب کو ان مجرمین کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے جن کا ذکر اس آیت سے اوپر ہے، بلکہ سب نے اس خطاب کو تمام انسانوں کے لیے تسلیم کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پل صراط کی احادیث اور اقوال صحابہ کو نظرانداز کیے بغیر اس ضمیر خطاب کو صرف مجرمین کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے اس حقیر نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ مجھے بھی علامہ حمیدالدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت ہے لیکن اتنی نہیں کہ صحیح احادیث اور اقوال صحابہ کو نظر انداز کردوں۔
یہ عجیب بات ہے کہ آپ ایک طرف ضمیر خطاب کا مخاطب صرف مجرمین کو قرار دے رہے ہیں، اور دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کو پل صراط پرسے گزرنا ہوگا۔ آپ نے ’ثم ‘ اور ’حَتْـمًا مَّقْضِيًّا‘ کے بارے میں کسی دلیل کے بغیر جو باتیں لکھی ہیں ان پرکچھ لکھنا خواہ مخواہ کلام کو طویل کرنا ہے۔ جب ’ورود‘ کے معنی صرف ’دخول‘ کے نہیں تو تمام تاویلات لا حاصل ہیں۔
سورۂ الانبیاء کی آیات ۱۰۱ تا ۱۰۳ کے بارے میں اس حقیر نے جو اصل بات لکھی ہے اس پر آپ نے بالکل توجہ نہیں کی۔اس پوری بحث کو یہاں دہرانا بے کار ہے۔ آپ اس کو دوبارہ پڑھیں۔ میں اس کا حاصل یہاں عرض کرتاہوں اوروہ یہ ہے کہ ’’اُولٰۗىِٕكَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ۱۰۱ۙ ‘‘ اور ’’لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَہَا۰ۚ‘‘ کا تعلق جنت میں پہنچ جانے کے بعد ہے، اس سے پہلے نہیں۔ کیوں کہوَہُمْ فِيْ مَا اشْتَہَتْ اَنْفُسُہُمْ خٰلِدُوْنَ۱۰۲ۚ ’’اوروہ ہمیشہ ہمیش اپنی من بھائی نعمتوں میں رہیں گے‘‘ کا فقرہ اس کی واضح دلیل ہے۔ من بھائی نعمتوں میں خلود، میدان قیامت میں نہیں بلکہ جنت میں ہوگا اور سورۂ مریم میں جو بات کہی گئی ہے وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے کی ہے۔ اس لیے سورۂ الانبیاء کی آیتوں کو سورۂ مریم کی زیرِ بحث آیت کے لیے دلیل بنانا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے توپل صراط کو مفسرین کا قول قراردے دیا ہے اورتمام اہل ایمان کے جہنم سے گزرنے پر العیاذباللہ پڑھ لیا ہے،لیکن آپ کا معاملہ عجیب ہے۔ آپ ایک طرف پل صراط سے تمام اہل ایمان کے گزرنے کے بھی قائل ہیں اور دوسری طرف سورۂ انبیاء میں اُولٰۗىِٕكَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ۱۰۱ۙ کی اس تفسیر کو بھی صحیح قرار دیتے ہیں جو مولانا امین احسن صاحب نے کی ہے۔ آپ نے غور نہیں کیا ہے کہ پل صراط پرسے گزرنے والے اہل ایمان کے لیے نہ جہنم کی ہوا روک دی جائے گی، نہ اس کی آہٹ بند ہوگی اور نہ اس پر کوئی پردہ ڈالا جائے گا۔ صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنا ہول ناک وقت ہوگا کہ انبیاء کرام علیہم السلام بھی اَللّھُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ (اے اللہ! جہنم سے بچالے، جہنم سے بچالے) کی دعا مانگتے ہوئے پل صراط سے گزریں گے۔ غالباً احادیث صراط اور سورۂ مریم کی آیت میں تطبیق دینے کے جذبے نے آپ کو اس پر غورکرنے سے روک دیا۔
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے سورۂ انبیاء کی آیت ۱۰۱ اور ۱۰۲ کی جو تفسیر کی ہے وہ اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ انھوں نے اس کو جنت میں داخل ہونے سے پہلے کا واقعہ سمجھ لیا ہے۔ حالاں کہ دونوں آیتیں داخل ہونے کے بعد کی صورت حال واضح کررہی ہیں۔ وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِمَنْ يَّرٰى۳۶ ’’اور بھڑکتی ہوئی دوزخ ہردیکھنے والے پر ظاہر کردی جائے گی۔‘‘ اوروَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍؚبِجَہَنَّمَ ’’اور جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی۔‘‘ کی آیتیں پیش کرتے وقت وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۹۰ۙ ’’اور جنت متقیوں کے قریب لے آئی جائے گی۔‘‘ میری نگاہ سے اوجھل نہ تھی لیکن مجھے تو صرف یہ دکھانا تھا کہ میدانِ حشر میں جہنم کامشاہدہ اہلِ ایمان بھی کریں گے، اس لیےوَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۹۰ۙ کو بیان کرنے کا موقع نہ تھا۔ مولاناامین احسن اصلاحی صاحب نے سورۂ مریم کی زیر بحث آیتوں کی تفسیر میں ایک جگہ لکھا ہے
’’جہنم کی تواہل تقویٰ کو جیسا کہ اوپر گزرا، ہوابھی نہیں لگنے پائے گی۔‘‘
(تدبر قرآن، ج۴،ص۱۳۵)
کسی کو کسی چیز کی ہوا نہ لگنا اردو کا ایک محاورہ ہے جو کسی چیز کو کسی سے قطعی بچانے اور چھپائے رکھنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اہل تقویٰ سے اس طرح چھپا کررکھی جائے گی کہ ان کی نظر بھی اس پر نہ پڑے گی۔ اسی لیے میں نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ ’’مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اصحاب الاعراف کے بارے میں جو کچھ لکھ آئے ہیں وہ سورۂ انبیاء کی زیر بحث دو آیتوں کی تفسیر میں ان کو یاد نہیں رہا۔‘‘ افسوس ہے کہ آپ اس تضاد کو محسوس نہیں کرسکے ہیں، بلکہ خود اسی تضاد میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِمَنْ يَّرٰى۳۶کی آیت بھی میں نے یہ دکھانے کے لیے پیش کی تھی کہ میدان حشر میں جہنم اہل تقویٰ سے چھپاکر نہیں رکھی جائے گی، وہ بھی اسے دیکھیں گے۔ لِمَنْ يَّرٰىمیں مَنْکو عام میں نے اپنے جی سے نہیں مانا ہے، بلکہ مستند مفسرین قرآن نے اس کو عام تسلیم کیا ہے۔ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی یہ تشریح کی ہے
اَیُّ اُظْھِرَتْ لِلنَّاظِرِیْنَ فَرَاھَا النَّاسُ عَیَانًا
یعنی وہ دیکھنے والوں کے لیے ظاہر کردی جائے گی جس کو لوگ بچشم سردیکھیں گے۔
تفسیر جلالین میں یہ تشریح ہے
اُظْھِرَتِ النَّارُالمُحْرِقَۃُ لِکُلِّ رَاءٍ
یعنی جلانے والی آگ ہردیکھنے والے کے لیے ظاہر کردی جائے گی۔
شاہ عبدالقادردہلوی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہما نے یہ ترجمہ کیاہے
’’اور نکال ظاہر کردیں دوزخ کو جو چاہے دیکھے۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنے حاشیہ قرآن میں لکھا ہے
’’یعنی دوزخ کو اس طرح منظر عام پر لائیں گے کہ ہر دیکھنے والا دیکھ سکے گا، کوئی آڑ، پہاڑ درمیان میں حائل نہ رہے گا۔‘‘
اب اگر اس حقیر نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ قیامت کے میدان میں جہنم کو اہل تقویٰ بھی دیکھیں گے تو کون سے بے تکی بات لکھ دی ہے؟ قابل غوربات یہ بھی ہے کہ اگر جہنم صرف اہل شرک وکفر کے لیے ظاہر کی جائے گی تو عموم کا صیغہ کیوں اختیار کیاگیا، یہاں بھی تو وَبُرّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلطَّاغِیْنَ یا لِلْغَاوِیْن یا لِلمُجْرِمِیْنَ کہا جاسکتا تھا۔
سورۂ الشعراء میں وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغَاوِیْن کی آیت کریمہ کا مطلب فَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنکی آیت سے سمجھنا چاہیے۔یہ مسلمانوں کو خطاب کرکے کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کافروں کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں داخل نہ ہوگا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاً وہ کافروں اور مشرکوں ہی کے لیے تیارکی گئی ہے اور وہ انھیں کا ابدی ٹھکانا ہے۔ اسی طرح وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغَاوِیْنَ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے سوا اسے اور کوئی نہ دیکھے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاً وہ گم راہوں کے لیے ظاہر کی جائے گی تاکہ وہ اس میں داخل ہونے سے پہلے لرزہ براندام اور نیم جان ہوجائیں اور انھیں ذلیل کرنے کے لیے ان سے سوالات کیے جائیں۔ اہل تقویٰ جو جہنم کا مشاہدہ کریں گے وہ ان کے جذبۂ شکروسپاس میں اضافہ کرے گا کہ اللہ نے کس خوف ناک چیز سے انھیں بچالیا اور جنت میں داخل ہونے سے پہلے ان کی مسرت میں اضافہ کرے گا۔ صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل تقویٰ کو جنت اور جہنم کا مشاہدہ ان کی قبروں میں بھی کرایا جائے گا اور صحاح کی بعض روایتوں میں اہل شرک وکفر کے لیے بھی یہ کہاگیا ہے کہ ان کو بھی ان کی قبروں میں جہنم اور جنت کامشاہدہ کرایا جائے گا۔
قسم کے بارے میں امام رازیؒ کے جوابات کی جو توجیہ اس حقیر نے کی ہے اسے آپ صحیح نہیں سمجھتے تو کیا حرج ہے۔ اس پر کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر میں عرض ہے کہ جس مدرسہ سے آپ نے میرے تبصرے پرطویل تبصرہ بھیجا ہے اس میں آپ متعلم ہیں تو ان معروضات پرضرور غور کریں۔ اور اگر معلم ہیں جب بھی اپنے فہم قرآن کو اتنا بڑا درجہ نہ دیجیے کہ دوسروں کا فہم قرآن قابلِ غور بھی باقی نہ رہے۔
(فروری ۱۹۸۵ء ج ۱ ش ۲)