جنگلی اور پالتو مکھی کے شہدپر زکاۃ کاکیا حکم ہے؟
جواب
شہد کے بارے میں یہ بات مختلف فیہ ہے کہ آیا بجاے خود شہد کی ایک مقدار میں سے زکاۃ وصول کی جانی چاہیے یا اُس کی تجارت پر وہی زکاۃ عائد کی جائے جو تجارتی مال پر ہے۔حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ شہد بجاے خود محل زکاۃہے، اور یہی مسلک احمدؒ، اسحاق بن راہویہؒ،عمر بن عبدالعزیزؒ،ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ کا ہے،اور امام شافعی ؒ کا بھی ایک قول اس کے حق میں ہے۔ بخلاف اس کے امام مالکؒ اور سفیان ثوریؒ کہتے ہیں کہ شہد بجاے خود محل زکاۃ نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ کا بھی مشہور قول یہی ہے۔ اور امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ:لَیْسَ فِی زَکاۃِ الْعَسْلِ شَئیئٌ یَصِحّ({ FR 2043 }) ’’شہد کی زکاۃ کے معاملے میں کوئی حدیث صحیح موجود نہیں ہے۔‘‘ ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ شہد کی تجارت پر زکاۃعائد کی جائے۔ (ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۵۰ء)