عذاب قبر کی مزید توضیح

۱-عذاب قبر جسم سے متعلق ہوتاہے یا روح سے؟ بعض قبروں کو کھولنے سے مردے جوں کے توں نکلتے ہیں۔ ایک امریکن سے اس موضوع پر بات ہورہی تھی۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ مردے کو بنا سنوار کر، ہر طرح کے اثرات سے محفوظ رہنے والے بکس میں بند کرکے دفناتے ہیں۔ بعض مقدمات کے سلسلے میں قبر سے مردہ نکالا جاتا ہے اور وہ اسی حالت میں ملتا ہے جس حالت میں دفنایا گیاتھا۔ کبھی یہ مدت پانچ، سات سال سے تجاوز کرجاتی ہے۔ اور بعض دفعہ اس امریکن کے کہنے کے مطابق بیس سال بھی۔ سوال یہ ہے کہ غیرمسلم کو عذاب قبر کیسے سمجھایا جائے۔

۲-بہت سے غیرمسلم اپنے مردے جلادیتے ہیں۔ ان کے سامنے ہم عذاب قبر کی توضیح کس طرح کرسکتے ہیں ؟

جواب

آپ کے ان دوسوالات کاجواب دینے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک نہایت اہم اصولی بات کی طرف توجہ دلائی جائے۔ وہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے اور جو چیزیں ہماری نگاہوں سے اوجھل اورہماری ادراک سے ماورا ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، فرشتے، جنت،جہنم، قیامت،ان کے بارے میں ہم اسی قدرجان سکتے ہیں جس قدراللہ اوراس کے رسولؐ نے ہمیں بتادیا ہے۔ ہم سے ایمان بالغیب کامطالبہ ہے۔ قرآن کریم اور صحیح احادیث کے بیان سے زیادہ تفصیل جاننے کی خواہش لاحاصل ہے۔ اس لیے کہ انسانی عقلیں محدود ہیں اور بہت سی چیزیں ان کے دائرے سے باہر ہیں۔ ان کی نشان دہی صرف وحی الٰہی کرتی ہے اور کرسکتی ہے۔ اس اصول کو مانے بغیر ایمان سلامت نہیں رہ سکتا۔ ایک مومن کاکام یہ ہے کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ جو بات کہی جارہی ہے وہ قرآن وصحیح احادیث سے ثابت ہے یا نہیں اور جب معلوم ہوجائے کہ ثابت ہے تو پھر بے چون وچرا اس کو تسلیم کرلے۔جب کسی کو یہ یقین حاصل ہوجائے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بتائی ہوئی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی تو پھر الجھن کیوں ؟ ہم خدا اور اس کے رسولؐ پرایمان لائے ہیں یا اپنی عقل پر؟ اس اصولی بات کو اچھی طرح ذہن نشین رکھیے۔ یہ بہت سارے مسائل میں آپ کی الجھن دورکردے گی۔
۱-آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قبر کا عذاب ہویا ثواب، اس کا اصل تعلق روح سے ہوتا ہے۔ عذاب کی جو شکلیں قرآن اور احادیث میں بیان ہوئی ہیں ان کو ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ آپ یہ جانتے ہیں کہ فرشتے ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں، لیکن ہم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔ اسی طرح شیاطین بھی ہیں، لیکن ہم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی جسم پر عذاب ہورہاہو، لیکن ہم اسے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کوئی آواز سن سکتےہیں۔ اس کی ایک مثال ہماری زندگی میں بھی موجود ہے۔مثلاً ایک شخص سویا ہوا ہے، ڈرائونا خواب دیکھ رہاہے، تکلیف محسوس کررہاہے، بلکہ کبھی چیخ اٹھتا ہے، لیکن دوسرا شخص جو اس کی بغل میں لیٹا ہوا ہو،اس سے بالکل بے خبر رہتا ہے، وہ کچھ نہیں دیکھتا۔جسم پر عذاب کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کا کوئی اثر جسم پرنظر آئے، جس طرح خواب دیکھنے والے کے جسم پر کوئی اثر نمایاں نہیں ہوتا۔فرض کیجیے کسی شخص نے خواب میں دیکھا کہ دشمن نے اس کے جسم میں نیزہ بھونک دیا۔ وہ چیخ پڑا۔ لیکن آنکھ کھلی تو جسم پر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔ اس سے معلوم ہواکہ جن مردوں کے جسم قبر سے محفوظ نکلتے ہیں اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ عذاب سے بھی محفوظ ہوں۔ عین ممکن ہے کہ ان پر عذاب ہورہاہو لیکن ان کو دیکھنے والے دوسرے لوگ بالکل بے خبر ہوں۔
۲-آپ اس پر غورکریں کہ مثال کے طورپر آپ کسی غیرمسلم کو فرشتوں کے وجود پرکس طرح مطمئن کریں گے۔ کوئی جزوی مسئلہ کسی کو سمجھانا یا اس پر اس کو مطمئن کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ اس کلیہ کو نہ سمجھ لے جس سے وہ جزوی مسئلہ نکلا ہے۔ جب تک کسی شخص کو آپ توحید، رسالت،آخرت اور وحی الٰہی اورقرآن کے کلام الٰہی ہونے پر مطمئن نہ کریں، وہ ان جزوی مسائل کو کس طرح سمجھ سکتا ہے جو قرآن واحادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ اگر بنیادہی غائب ہوتو ستون کہاں قائم ہوں گے اور دیواریں کہاں کھڑی ہوں گی؟ کوئی غیرمسلم جب کسی جزوی مسئلے پراعتراض کرتا ہے تو ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم اس جزوی مسئلے کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اسے سمجھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
’قبر‘ کا لفظ قرآن وحدیث میں استعمال ہواہے۔ اس سے مراد صرف وہ گڑھا نہیں ہے جس میں مردہ دفن کیاجاتا ہے، بلکہ اس سے مراد ’برزخ‘ ہے۔ موت کے بعد سے قیامت تک کے درمیانی زمانے کو برزخ کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد سوال وجواب اور عذاب وثواب کے لیے قبر میں دفن ہونا ضروری نہیں ہے۔ برزخ کا ذکر سورۂ مومنون، آیت ۱۰۰ میں ہے۔ میں یہاں اس کا ترجمہ لکھتا ہوں 
’’امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا۔ ہرگز نہیں۔ یہ توبس ایک بات ہے جو وہ بک رہاہے۔ اب ان سے (مرنے والوں ) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ ‘‘
اس آیت میں برزخ کے مرحلے کاذکر ہے۔اس سے پہلے آیت ۹۹ میں موت کے مرحلے کا ذکر ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے
’’یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے یہاں تک کہ ان میں سے جب کسی کی موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ اے میرے رب !مجھے اس دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیاہوں۔ ‘‘
آیت ۱۰۱ میں قیامت کے مرحلے کا ذکر ہے۔اس کا ترجمہ یہ ہے 
’’پھر جوں ہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔‘‘
اس طرح ان آیتوں میں انسان کے چاروں مراحل کا ذکر آجاتاہے۔۱-زندگی ۲-موت، ۳-برزخ، ۴- قیامت۔ انسان جل کر خاک ہوجاتا ہے وہ بھی قیامت تک عالم برزخ میں رہے گا۔ سوال وجواب اور عذاب وثواب کا اصل تعلق چوں کہ روح سے ہے اس لیے ہر انسان کو اس مرحلے سے گزرنا ہے۔ جو غیرمسلم اپنے مردوں کو جلادیتے ہیں ان کو اسی طرح سمجھایا جاسکتا ہے کہ عذاب وثواب کا اصل تعلق روح سے ہوتاہے اور روح نہ جلتی ہے، نہ مرتی ہے۔ وہ باقی رہتی ہے۔اصل بات یہیں آکر ختم ہوتی ہے کہ عالم برزخ اور عالم آخرت کے بارے میں ہم اتنا ہی جان سکتے ہیں جتنا ہمیں بتادیا گیا ہے۔اس پر قیاس کرنے اور عقلی تیرتکے چلانے سے گم راہی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (نومبر ۱۹۸۵ء، ج ۳، ش۵)