میں اپنے ایمان کو شیطان سے بچانے کی کوشش کرتاہوں لیکن کبھی کبھی شیطان عجیب عجیب سوالات دل میں پیدا کرتاہے جن کا حل کبھی میں خود اپنے دماغ پرزور ڈال کر تلاش کرلیتا ہوں لیکن بعض سوالات کے جوابات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتے۔ گوکہ آپ ایڈیٹرہیں، عدیم الفرصت بھی ضرورہوں گے اور نہ سوالات کے جوابات دینا آپ کی ڈیوٹی ہے لیکن کارِثواب سمجھ کر مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت کیجیے۔
۱-تمام چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں اور اس کو ہربات کا علم بھی ہے۔ خدا نے جب ابلیس کی تخلیق کی توکیا خدا کو علم نہ تھا کہ یہ کیا شرارتیں کرے گا؟ اب اگر وہ شرارتیں کرتا ہے تو اس کا قصور کیا ہے؟
۲- کیا خدا کو علم نہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کیا غلطی کریں گے؟پھر اس نے پہلے ہی سے اس کا سدِّباب کیوں نہیں کیا؟ اگر سدِّباب کردیتا تو جنت میں ان سے غلطی سرزد نہ ہوتی۔
۳-جو آدمی ہندویا عیسائی گھر میں پیدا ہواہو اور اسی ماحول میں اس نے پرورش پائی ہو اس کے لیے مسلمان ہونا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی مسلمان کے لیے ہندوہوجانا۔ عام انسان اتنا عقل مند اور متجسس نہیں ہے کہ حق کی تلاش کرتا پھرے۔ پھر مخلوق کے اتنے بڑے حصے کو کیا دوزخ میں جلنا ہوگا؟
۴- گناہوں کی تعداد اتنی زیادہ ہےکہ ہزارانسان دامن بچانے کی کوشش کرے پھر بھی جنت حاصل کرنا دشوارمعلوم ہوتاہے۔ آخر انسان کی جان اس مصیبت میں کیوں پڑی کہ یہاں بھی پریشان اور دم نکلے تو پھربے حساب تکالیف۔
۵- جب یہاں شب قدرہوتی ہے توامریکہ میں دن ہوتاہے۔ تو کیا امریکہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں شب قدر الگ الگ مقرر ہے؟
جواب
آپ نے جو سوالات بھیجے ہیں ان کا تعلق اسلام کے سکھائے ہوئے عقیدۂ توحید اور اللہ تعالیٰ کی صفات اوراس کے اختیارات سے بھی ہے اور اس بات سے بھی کہ انسان اور جن کیوں پید ا کیے گئے ہیں اور انھیں دنیا میں جو زندگی ملی ہے اس کی نوعیت کیا ہے؟ جب تک ان باتوں کا علم او ر ان پر یقین نہ ہو آپ کے سوالات کے جوابات تسلی بخش نہیں ہوسکتے۔ اس لیے بہت اختصار کے ساتھ ان کے بارے میں چند باتیں عرض کرتاہوں۔ پھر آپ کے سوالات کے جوابات عرض کروں گا۔
۱-اللہ ایک اور یکتاویگانہ ہے، وہی انسانوں سمیت اس پوری کائنات کاخالق بھی ہے اور مالک بھی۔وہ علیم وخیبر بھی ہے، عادل ومنصف بھی اور حکمت والا بھی۔ وہ قادر مطلق بھی ہے اور مختارمطلق بھی۔ اس کے اختیارات کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں، وہ اپنی تمام مخلوقات سے بازپرس کرسکتا ہے اور ان سے حساب لے سکتا ہے اوراس کی کسی مخلوق کو اس سے بازپرس کرنے اور حساب لینے کا حق نہیں ہے۔
۲- اس نے انسانوں اورجنوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی پرستش کریں اور زندگی کے تمام معاملات میں اس کے احکام پر چلیں، اس کی مکمل اور والہانہ اطاعت کریں۔
۳- انسانوں اورجنوں کو دنیا میں جو زندگی ملی ہے وہ عارضی اور آزمائشی ہے۔ اللہ نے ان سب کو کفر اور اسلام، غلط اور صحیح، گناہ اور ثواب،نافرمانی اورفرماں برداری کی راہ پرچلنے کا اختیاردے کر اس امتحان کے لیے بھیجا ہے کہ کون ان میں کیا پسند کرتا اور کس راہ پرچلتا ہے؟ پھر دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی آنے والی ہے جس میں وہ ان سب سے حساب لے گا۔ جو اس کافرماں بردار ہوگا اسے اپنی خوش نودی اور جنت عطا فرمائے گا اور جو نافرمان رہاہوگا اس سے ناخوش ہوگا اور اسے دوزخ میں ڈال دے گا اور آخرت کی وہ زندگی ابدی ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان باتوں پر کسی شخص کو یقین حاصل ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تواس کو آپ کے سوالات کے تشفی بخش جواب حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اور اگر خدانخواستہ اسے ان باتوں پریقین ہی نہ ہو تواس کے لیے کوئی جواب تشفی بخش نہیں ہوسکتا۔ آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مخلص مسلمان ہیں لیکن یہ باتیں آپ کے ذہن سے اوجھل ہوگئیں اس لیے آپ کو الجھن پیداہوئی۔ اب میں نمبروار آپ کے سوالات کے مختصر جوابات عرض کرتاہوں۔
۱-آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یقیناً علم تھا اور ہے کہ ابلیس کیا شرارتیں کرے گا۔ لیکن ابلیس نے نافرمانی کی راہ اپنی پسند سے اختیارکی ہے۔ وہ ایک صاحبِ ارادہ ہستی ہے۔ اس نے اپنے ارادے سے نافرمانی کی اور اب بھی کررہاہے۔ خدا نے اس کو نافرمانی پرمجبورنہیں کیا ہے؟ اس کا قصوریہی ہے کہ اس نے بالقصد نافرمانی اختیارکی ہے،وہ اس پرمجبورنہیں کیاگیا ہے۔ کسی بات کا علم ہونا اور بات ہےاور کسی کو کسی بات پر مجبورکرنا بالکل دوسری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ عادل بھی ہے اور رحیم وحکیم بھی ہے۔اس کے عدل اور اس کی رحمت وحکمت سے بعید ہے کہ وہ بے قصورکو قصوروارٹھیرائے اور اس کو سزادے۔
۲-اللہ کو خوب معلوم تھا کہ آدم سے غلطی سرزدہوگی لیکن یہ سوال کہ اس نے پہلے سے اس کا سدِّباب کیوں نہیں کیا؟ دراصل یہ سوال ہے کہ اللہ نے ایک ایسی مخلوق پیدا ہی کیوں کی جو غلطی بھی کرسکتی ہے ؟ اگر وہ غلطیوں اور گناہوں کا سدِّباب پہلے ہی کردیتا توانسان انسان نہ رہتا،فرشتہ ہوتا،آدم کو اس نے انسان بناکر پیدا کیا تھا، فرشتہ بناکر نہیں۔ اس طرح کا سوال ذہن میں پیدا ہوتو یہ سمجھ کر اسے ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ یہ دراصل اللہ کی صفتِ تخلیق اوراس کے اختیارات کو چیلنج کرنے کے ہم معنی ہے جس کا کسی کو حق نہیں ہے۔ یہ سوال تو شیطان نے بھی اللہ سے نہیں کیاتھا۔آپ کو معلوم ہوگا کہ جب شیطان نے نافرمانی کی اور آدم کو سجدہ نہیں کیا تو اللہ نے اس سے اس کا سبب دریافت کیا۔ اس کے جواب میں اس نے کہاتھا کہ تو نے مجھے آگ سے پیداکیا اور آدم کو مٹی سے، آگ بلندی کی طرف جاتی ہے اور مٹی پستی کی طرف، اس لیے میں اس سے بہترہوں اور اس کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ اس نے اللہ سے یہ نہیں کہا کہ تو نے مجھے نافرمانی کرنے سے روک کیوں نہیں دیا؟ اور جب تجھے علم تھا کہ میں نافرمانی کروں گا تو پہلے سے تو نے اس کا سدِّباب کیوں نہ کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان اتنا سمجھتا تھا کہ اسے اللہ کی صفتِ تخلیق اوراس کے اختیارکو چیلنج کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔عقل بھی کہتی ہے کہ اس طرح کا سوال مہمل اور بے معنی ہے اس لیے کہ جب اللہ نے ایسی مخلوق پیدا کردی ہے تو پھر اس سوال کا کیا فائدہ کہ اس نے ایسی مخلوق کیوں پیداکی؟ اب تو انسان کے لیے صحیح اور معقول روش یہی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے خالق کی فرماں برداری اختیار کرکے اس کی خوش نودی حاصل کرے۔
یہ توہوسکتا ہے کہ کوئی شخص خدا کے وجود یا اس کی صفات اور اس کے اختیارات کا انکار کردے لیکن یہ بات معقول نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص خدا کو مانے، اس کے مطلق اختیارات کو تسلیم کرے، اس کے عدل اور اس کی رحمت وحکمت کا قائل ہواور پھر یہ سوال کرے کہ خدا نے یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا؟ اس لیے اصل سوال یہی ہے کہ کوئی شخص خدا، اس کی صفات اور اس کے اختیارات پریقین رکھتا ہے یا نہیں ؟اگر نہیں رکھتا تو سب سے پہلے خدا کے وجود اور اس کی صفات پرگفتگو کرنی چاہیے۔ کسی الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سرا ڈھونڈھ لیاجائے ورنہ جس قدر سلجھانے کی کوشش کی جائےگی مزید گھتیاں پڑتی جائیں گی۔ اس طرح کے سوالات جب پیدا ہوتے ہیں تو لوگ اس بنیادی بات کو بھول جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی جواب سے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔
۳-آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کو حق مل چکا ہے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں تک حق پہنچائیں جن تک وہ نہیں پہنچا ہے۔ مسلمان چوں کہ عرصہ دراز سے اس ذمہ داری کو ادا نہیں کررہے ہیں اس لیے اس طرح کے یاس انگیز خیالات ان کے ذہن میں پیداہوتے ہیں۔ ہرانسان (جوپاگل نہیں ہے) عقل بھی رکھتا ہے اور متجس بھی ہوتاہے۔ دنیا کے معاملات حل کرنے کے لیے وہ اپنی عقل بھی استعمال کرتا ہے اور تجسس بھی کرتا ہے۔ اب اگروہ اس پر غورنہیں کرتا کہ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے؟ کون اس کو لایا ہے؟ مرنے کے بعد پھر کہاں اس کو جانا ہے اور اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتا اوراس میں تجسس نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد وجہیں ہیں۔ مثال کے طورپر اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے وہ ا س اہم مسئلے کی طرف توجہ نہیں دیتا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے پرراضی اور مطمئن ہوگیا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ کوئی پکارنے والا اسے پکارے، حق کی دعوت دینے والا اسے حق کی دعوت دے اور اپنے قول وعمل سے خود حق کی گواہی بھی دے۔ اس آواز اور اس دعوت سے غفلت میں پڑے ہوئے لوگ چونک اٹھتے ہیں۔ اور وہ ان باتوں پرغور کرنے کے لیے مجبورہوجاتے ہیں جن سے غافل تھے۔ آپ نے اس پر بھی غورنہیں کیا کہ پورا جزیرۃ العرب کس طرح مسلمان ہوگیا؟ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی آواز بلند کی اس وقت وہاں آپ کے سوا کوئی مسلمان نہ تھا۔ہرطرف شرک وکفر ہی پھیلا ہواتھا لیکن صرف ۲۳سال کی مدت میں وہاں ہرطرف اسلام ہی اسلام کس طرح پھیل گیا؟ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ قیامت تک جتنے انسان پیدا ہونے والے ہیں ان سب سے اللہ نے اپنے واحد رب ہونے کا اقرار لے لیا ہے۔ اللہ کی ربوبیت اور وحدانیت ہرانسان کی فطرت میں داخل ہے۔ عقل رکھنے والے کسی انسان کے لیے شرک پرقائم رہنے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔ ہرعاقل انسان اپنے سابقہ اقراراوراپنی عقل کی بناپر کم سے کم اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے کامکلف ہے۔یہ بات بھی سامنے رکھیے کہ غیراسلامی ماحول میں پرورش پانے والے لوگ خواہ تھوڑی ہی تعداد میں سہی برابر اسلام قبول کرتےرہتے ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ آخر وہ لوگ کیوں اور کس طرح اسلام قبول کرلیتے ہیں ؟
۴- چوتھے سوال کاجواب یہ ہے کہ آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ حرام اور ناجائز چیزوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جائز چیزوں کی فہرست میں ناجائز چیزوں کی تعداد شاید ایک فی ہزار بھی نہ ہوگی۔ پھر اس پربھی غورکیجیے کہ دنیا کا عیش وآرام، یہاں کے عہدے اور مناصب، یہاں کی شہرت اورنام ونمود اورمال و دولت حاصل کرنے کے لیے انسان کتنی دشواریاں برداشت کرتاہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ اس کےلیے اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔ تو کیا آخرت کی ابدی زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے دشواریاں برداشت کرنا عقل کے خلاف ہوگا؟ اگرکسی کو آخرت کی زندگی پریقین ہوتودنیا کی تمام دشواریاں اسے آسان نظر آئیں گی۔ اس کے علاوہ اللہ کاکرم یہ ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ اگر انسان خلوص دل سے گناہوں کی معافی مانگے تواس دنیا میں شرک اورکفر بھی معاف ہوجاتا ہے۔آج ایک شخص کافر ہے اورکل مسلمان ہوسکتا ہے، البتہ شرک اور کفر پرمرجانے کے بعد معافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔
۵- پانچویں سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح نماز، روزے اور دیگر دینی معاملات کا تعلق ہرملک میں اس کے اپنے افق اور اوقات روزوشب سے ہے اسی طرح شب قدر کا بھی حساب ہوگا۔ امریکہ کے لوگ جس طرح رمضان کے روزے اپنے ملک کے طلوع وغروب کے حساب سے رکھیں گے، اپنے یہاں کی رویت ہلال کے حساب سے روزوں کا حساب کریں گے اور عید کی نماز ادا کریں گے، اسی طرح شب قدر بھی انھیں کے حساب سےہوگی۔ (مارچ ۱۹۳۷ء،ج ۵۱،ش۳)