میں موجودہ دینی جماعتوں میں سے کسی کا ممبر نہیں ہوں لیکن دینی جرائد واخبارات کے مطالعے کا شائق ہوں۔ میں نے ’زندگی‘ میں آپ کے ستمبر۱۹۶۶ء والے اشارات بھی پڑھے تھے اوراس کے بعد اس پر اشکال وجواب اشکال بھی پڑھاتھا۔ موجودہ پارلیمنٹوں اور اسمبلیوں کے لیے مندروں اور استھانوں کی تشبیہ کی جو توضیح آپ نے کی تھی اس سے بات صاف ہوگئی تھی۔ اورآپ نے اپنے دوسرے جواب کے آخر میں اس پر گفتگو ختم بھی کردی تھی لیکن تازہ الفرقان فروری ۱۹۶۷ء میں آپ کے دوسرے جواب کا لمباجواب نظر سے گزرا اور آخر میں یہ نوٹ بھی پڑھا کہ آپ نے مکتوب نگار کا تیسرا مکتوب شائع کرنے سے معذرت کردی تھی۔ حالاں کہ اس میں آپ پرایک سخت الزام لگایاگیاتھا۔ آپ کو زندگی میں اس کا جواب دینا چاہیے تھا۔ خیریہ توآپ جانیں کہ آپ نے مکتوب شائع کرکے جواب کیوں نہیں دیا۔ میرے ذہن میں وہ مکتوب پڑھ کر چند سوالات پیداہوئے ہیں۔ مجھ پر عنایت ہوگی اگر آپ ان کا جواب دیں۔
پہلی بات یہ کہ مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ عقیدہ اور نظریہ میں فرق ہے اور ان دونوں کا ایک بہت موٹا فرق تقدس وعدم تقدس کے بغیر پایا ہی نہیں جاتا۔ کیا موصوف کی بات صحیح ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حاکمیت ِجمہور کا خیال صرف شخصی حاکمیت کے مقابلے میں پیدا ہواتھا اور حاکمیت الٰہ کی تردید پیش نظر نہ تھی؟
تیسرا سوال یہ کہ کسی غیراسلامی اور خلاف حق نظام حکومت کی مثبت تعبیر کیاہوگی؟
جواب
راقم الحروف نے مکتوب نگار کے دوسرے مکتوب کا جواب دے کر گفتگو اس لیے ختم کردی تھی کہ مجھے اندازہ تھا کہ اب اس کے جواب میں وہی باتیں دہرائی جاسکتی ہیں جو پہلے کہی جاچکی ہیں۔ اور اس کے جواب میں اگر میں پھر لکھوں گا تو وہ بھی لازماً وہی ہوں گی جو میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ اس طرح ایک لاحاصل گفتگو کا سلسلہ دراز ہونے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ جب فاضل مکتوب نگار کا تیسرامکتوب (جو الفرقان فروری ۱۹۶۷ء میں شائع ہواہے) مجھےملا تو معلوم ہوا کہ میرا اندازہ صحیح تھا۔ بلکہ اس میں اندازے کے خلاف مجھ پر ایک سخت الزام بھی تھا جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ جب فاضل مکتوب نگار نے میرے بارے میں یہ خیال قائم کرلیا کہ میں جماعتی عصبیت میں خود اپنی کہی ہوئی بات بلکہ ’نصوص قطعیہ ‘ کو بھی نظر اندا ز کررہاہوں تو اب افہام وتفہیم کی کیا گنجائش باقی رہی تھی۔ آپ کہتے ہیں کہ مجھے مکتوب شائع کرکے اس کا جواب دینا چاہیے تھا حالاں کہ میرے نزدیک یہ الزام بھی اس مکتوب کا جواب نہ دینے کا ایک معقول سبب تھا۔
کسی فرد واحد کو یا کسی انسانی گروہ کو اذن الٰہی یا مستند شرعی دلیل کےبغیر تحلیل وتحریم یا تشریع کا حق دینا یا اس کا اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھنا میرے نزدیک منصوص شرک ہے اور میں نے اسی پردلائل دیے تھے۔ جماعت اسلامی نے الیکشن میں حصہ لینے نہ لینے کے بارے میں جو فیصلے کیے ہیں وہ اس کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ان فیصلوں نے میرے اس یقین پرکوئی اثر ڈالا ہے۔ لیکن مکتوب نگار کاخیال یہ ہے کہ میں نے جماعت کے فیصلوں کی وجہ سے نصوص قطعیہ کو بھی پیچھے ڈال دیا ہے۔ اب میں انھیں اس کا کیا جواب دوں ؟ میں نے لکھا ہے کہ موجودہ نظام حکومت کو غیر اسلامی اور خلاف حق سمجھنے والوں کا اہم اسلامی مفادات کے لیے پارلیمنٹ یا اسمبلیوں کا ممبر بننا اور ان کا حلف وفاداری لینا نہ عقیدے کا شرک ہے اور نہ عمل کا۔ لیکن مکتوب نگارکو اصرار ہے کہ نہیں، تم حلف وفاداری کو عملی شرک سمجھتے ہو اور بتائو کہ کسی اسلامی مفاد کے لیے عملاً شرک کے ارتکاب کی نظیر کیا ہے اور کہاں ہے؟ اب آپ ہی بتائیے میں ان کو اس کا کیا جواب دوں ؟
خوشی کی بات ہے کہ موصوف نے جماعت اسلامی کے موجودہ موقف کی تائید کی ہے یا اس کو صحیح قراردیا ہے لیکن ان کا دھیان ادھر نہیں گیا کہ کسی غیراسلامی اور خلاف حق ادارے کی شرکت اورممبری کی شرعی نظیر کیا ہے؟ اسی طرح کسی غیراسلامی اور خلاف حق دستور کے لیے حلف وفاداری کی شرعی نظیر کہاں ہے؟ اگر موصوف اس کی کوئی شرعی نظر پیش فرمادیتے تو جماعت اسلامی کو تقویت حاصل ہوتی۔
یہ آپ کے خط کی تمہید کے ذیل میں چند سطریں لکھی گئی ہیں۔ موصوف کے طویل مکتوب کا جواب دینا مقصود نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک مقالے کی ضخامت چاہیے۔ اب میں اختصار کے ساتھ آپ کے سوالات کے جوابات عرض کرتاہوں۔
۱-آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ’عقیدہ‘ کے لیے تقدس اور ’نظریہ‘ کے لیے عدم تقدس کی شرط پہلی دفعہ میں نے مکتوب نگار ہی کی تحریر میں پڑھی ہے۔ ان کے خیال میں حاکمیت الٰہ ’عقیدہ‘ ہے اس لیے کہ اس میں تقدس پایا جاتا ہے۔ چوں کہ حاکمیت الٰہ پریقین رکھنے والا شخص اللہ کو مقدس ومنزہ بھی سمجھتا ہے اور حاکمیت جمہور’عقیدہ‘ نہیں ہے بلکہ نظریہ ہے۔ اس لیے کہ اس پر یقین رکھنے والا شخص جمہوریعنی زید، عمر، بکراور نتھو، خیرو،بدھو کے تقدس کاقائل نہیں ہوتا۔ میں نے مکتوب نگار کی تحریر میں ’عقیدہ‘ کے لیے شرط تقدس کی دلیل ڈھونڈھی لیکن دلیل نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی۔
لغت واصطلاح ہردولحاظ سے ’عقیدہ‘ قلب وضمیر کے کسی پختہ خیال اور اذعان کو کہتے ہیں اور یہ لفظ عمل کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ جس چیز یا جس ہستی کے بارے میں کوئی پختہ خیال یا اذعان پایا جارہاہواس کا مقدس ہونا تو بڑی بات ہے وہ ملعون ومردود بھی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طورپر میں کہتا ہوں ’’میراعقیدہ ہے کہ شیطان جہنمی ہے، میرا عقیدہ ہے کہ فرعون ونمرود خدا کے باغی تھے، میرا عقیدہ ہے کہ شراب حرام ہے۔ ‘‘ کیا ان تین مثالوں میں کہیں بھی کوئی تقدس پیداہوگا؟ اس طرح کی بیسیوں مثالیں لکھتے چلے جائیے۔ کیا موصوف فرمائیں گے کہ ان مثالوں میں ’عقیدہ‘ کا لفظ صحیح استعمال نہیں ہوا ہے۔ اب ایک منفی مثال دیکھیے۔ ایک ملحد کہتا ہے’’میرا عقیدہ ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔‘‘ آپ غورفرمائیے اس مثال میں تقدس کا کوئی تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟’’کیا فاضل مکتوب نگار کہہ دیں گے کہ انکار خدا پر لفظ ’عقیدہ‘ کا اطلاق صحیح نہیں ہے؟معلوم نہیں کس خیال میں موصوف نے ایک بےمغزبات لکھ دی ہے؟
۲- آپ کے دوسرے سوال کا جواب بہت تفصیل چاہتا ہے جس کا یہ موقع نہیں ہے۔ مختصراً میں یہ عرض کروں گا کہ حاکمیت دونوں جمہورکا عقیدہ صرف بادشاہت یا شخصی حاکمیت کے مقابلے میں پیدانہیں ہواتھا بلکہ انسان کی شخصی حاکمیت اور اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت کے دونوں مقابلے میں پیدا کیا گیا تھا اور پورے شعور کے ساتھ سیاست کو مذہب سے الگ کرکے مذہب کو افراد واشخاص کا پرائیویٹ معاملہ قراردیا گیاتھا اور اس سے حکومتی واجتماعی معاملات میں مداخلت کا حق چھین لیاگیا تھا۔ اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ حاکمیت جمہور کا تخیل صرف شخصی حاکمیت کے مقابلے میں پیش کیاگیا تھاتو اس سے اصل مسئلے میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ پہلے اقتدار اعلیٰ بادشاہ،پاپائے اعظم یا دونوں کے ہاتھوں میں تھا اور اب جمہور کے حوالے کردیاگیا ہے۔ پہلے وہ لوگ آخری اتھارٹی ہوتے تھے اور اب پارلیمنٹس آخری اتھارٹی ہیں۔ یہاں نزاع اقتدار کی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی روسے مقتدراعلیٰ صرف اللہ ہے اور تکوینی حاکمیت کے ساتھ تشریعی حاکمیت بھی صرف اسی کا حق ہے۔ کسی دوسرے کو اذن الٰہی کے بغیر یہ حق دینا یا کسی کا اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھنا شرک ہے۔ اگر یہ شرک کسی کی ضد میں اختیارکیاجائے جب بھی شرک ہی رہے گا اوراس شرک کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ آدمی یہ طے کرے کہ قانون سازی کا حق اللہ کو نہیں ہے۔ آج تک ابوجہل اور ابولہب جیسے مشرکین نے بھی یہ نہیں کہا کہ خدا کو قانون سازی کا حق نہیں ہے، صرف ہمیں ہے۔ خدا کا حق تسلیم کرتے ہوئے کسی کو اس حق میں شریک قراردینے ہی کو تو شرک کہیں گے۔
۳-آپ کے تیسرے سوال کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ جو نظام حکومت غیراسلامی ہو وہ یا تو مشرکانہ ہوگا یا کافرانہ یا ملحدانہ یا منافقانہ۔ اسلام ایک دین ہے اور جس نظام کا تعلق اس دین سے نہ ہو، ظاہر ہے کہ اس کا تعلق کسی دوسرے دین سے ہوگا۔ اسی طرح جو نظام حکومت خلاف حق ہو، وہ باطل ہوگا یا جھوٹا یا باغیانہ۔ ویسے عقائد کی کتابوں میں حق کا مقابل لفظ باطل ہی لکھاگیا ہے۔ کبھی منفی تعبیر، مثبت تعبیر سے زیادہ جامع ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں بھی مثبت تعبیرات کے علاوہ منفی تعبیرات اختیارکی گئی ہیں۔ میں صرف دومثالوں پر اکتفا کروں گا۔
پہلی مثال
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۸۵
(آل عمران۸۵)
’’اورجوشخص اسلام کے سواکوئی اور دین چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا۔‘‘
اس آیت میں منفی تعبیر اس لیے اختیارکی گئی ہے کہ اختصار اور جامعیت پیدا ہوجائے۔ اسلام کے سوابیسیوں ادیان باطلہ موجود ہیں۔ سب کو شمار کرنے کے بجائے جامعیت کے ساتھ کہہ دیاگیا کہ کوئی بھی غیراسلامی دین خدا کے نزدیک مقبول نہیں۔
دوسری مثال
اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ (الانعام۹۳)
’’آج تم کو ذلت کا عذاب دیاجائے گا ان باتوں کی پاداش میں جو تم اللہ پر ناحق بولتے تھے۔‘‘
یہاں بھی غیرحق کا لفظ اختصاراورجامعیت پیدا کرنے کے لیے لایاگیا ہے۔ غیرحق جھوٹ بھی ہوسکتا ہے، افترا بھی،قول باطل بھی،گستاخی واستہزا بھی اور یہ سب باتیں اس لفظ میں داخل ہوگئی ہیں۔
(اپریل ۱۹۶۷ء، ج ۳۸،ش۴)