جواب
میں پہلے اختصار کے ساتھ پیشین گوئی کے بارے میں چند باتیں عرض کرتاہوں۔ اس کے بعد علم غیب سے متعلق کچھ عرض کروں گا۔
پیشین گوئی جن ماخذ یا جن علوم کی بناپر کی جاتی ہے، یا کی جاسکتی ہے وہ کئی قسم کے ہیں
پہلی قسم وحی الٰہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی وحی کی بنیاد پر پیشین گوئی۔ وحی الٰہی کی بھی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل اس وقت غیرضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ قسم انبیائے کرام علیہم السلام کے لیے مخصوص ہے۔ اس کی مثال وہ پیشین گوئیاں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے واقعات کے لیے کی ہیں۔ دوسری قسم ظنی وتخمینی ہے۔ مثلاً حالات کے گہرے مطالعہ کی بناپر کوئی صاحبِ بصیرت یہ پیشین گوئی کرے کہ فلاں واقعہ پیش آئے گا۔ یا آج کل سائنس کی بنا پر محکمہ موسمیات بارش یا طوفان کی جو پیشین گوئیاں کرتا ہے۔ اس طرح کی پیشین گوئیاں صحیح بھی ہوتی ہیں اور غلط بھی۔ ستاروں کی چال یا ہاتھ دیکھ کر جو پیشین گوئی کی جاتی ہے وہ بھی اسی قسم میں داخل ہے۔ تیسری قسم کشف والہام ہے۔ مثلاً کسی انسان کے ذہن پریہ بات کھول دی جائے کہ فلاں واقعہ پیش آئے گا۔ کشف والہام جو غیرنبی کوہو قطعی نہیں ہوتا، اس لیے صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی۔ اگر واقعہ پیش آجائے تو سمجھا جائے گا کہ کشف والہام صحیح تھا اور نہ پیش آئے یا غلط شکل میں پیش آئے تو سمجھا جائے گا کہ کشف والہام صحیح نہ تھا، وہم تھایا وسوسہ۔ چوتھی قسم خواب ہے۔ غیرنبی کا خواب بھی قطعی نہیں۔ اس لیے صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی۔اگر خواب میں دیکھا ہوا واقعہ پیش آجائے تو خواب صحیح ہوگا ورنہ سمجھا جائے گا اس کا تعلق اضغاث احلام (وہ خواب پریشاں جو معدے کی تبخیر کے باعث یا کسی اور سبب سے نظر آجاتے ہیں۔ یہ مہمل ہوتے ہیں، ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی) سے تھا۔یہ بھی ذہن میں تازہ رکھیے کہ وحی الٰہی کے سوابقیہ اقسام کے بارے میں جو کچھ عرض کیا گیا اس کا تعلق صرف پیش گوئی سے ہے۔ نیز یہ کہ اس کا تعلق دنیا میں پیش آنے والے کسی واقعہ سے ہے۔
علم غیب کے بارے میں اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ غیب کاذاتی، حقیقی، کلی اور کامل علم صرف اللہ کو ہے۔ عالم الغیب اور علام الغیوب صرف وہی ہے۔ کوئی دوسرا نہیں ہے، خواہ وہ مقرب ترین فرشتہ ہویا نبی ورسول۔ وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَط(اوراسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا)کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے اسی علم محیط کی خبردی گئی ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی غیب یا بعض غیوب کو اپنے کسی بندے پرکھول دے تو اس حد تک اس کو غیب کا علم ہوسکتا ہے۔ آیت الکرسی میں بتایا گیاہے
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۰ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۰ۚ (البقرۃ۲۵۵)
’’جانتا ہے جو خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کرسکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے۔‘‘
اس سے معلوم ہواکہ غیب کا کلی اورکامل علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔اسی کے ساتھ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۰ۚ کے استثنا سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو آئندہ ہونے والے واقعہ کا کوئی جزئی علم غیب عطا کردے تو اس کو اس حدتک علم غیب ہوسکتا ہے۔
علم غیب کے بارے میں اس مختصر اوراجمالی بات سےبھی آپ کی الجھن دور ہوسکتی ہے۔ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بعض مستند اورمعتمد علیہ علماء ومفسرین کی کچھ تشریحات بھی پیش کردی جائیں۔ سورۂ الانعام کی آیت ۵۹ وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَطکا حوالہ آپ نے اپنے خط میں دیاہے۔
اس کی تشریح مولانا شبیراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حاشیہ قرآن میں یہ کی ہے
’’مطلب یہ ہے کہ غیب کے خزانے اوران کی کنجیاں صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی ان میں سے جس خزانہ کو جس وقت اورجس قدرچاہے کسی پرکھول سکتا ہے۔ کسی کو یہ قدرت نہیں کہ اپنے حواس وعقل وغیرہ، آلات ادراک کے ذریعہ علوم غیبیہ تک رسائی پاسکے یا جتنے غیوب اس پر منکشف کردیے گئے ہیں، ان میں ازخود اضافہ کرلے۔ کیوں کہ علوم غیبیہ کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں، خواہ لاکھوں کروڑوں جزئیات وواقعات غیبیہ پر کسی بندے کو مطلع کردیا گیاہو۔ تاہم غیب کے اصول وکلیات کا علم جن کو ’مفاتیح غیب ‘ کہنا چاہیے، حق تعالیٰ نے اپنے لیے مخصوص رکھا ہے۔‘‘
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے تفہیم القرآن ج ۳ ص ۵۹۵میں لکھاہے
’’عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سواکوئی دوسرا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدرچاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے اورکسی غیب یا بعض غیوب کو اس پر روشن کردے۔ لیکن علم غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے۔‘‘
سورۂ نمل کی آیت ۶۵ قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللہُ۰ۭ (توکہہ دے،خبرنہیں رکھتاہے جو کوئی ہے آسمان اورزمین میں چھپی ہوئی چیزکی مگر اللہ)کے تحت مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ نے لکھا ہے
’’کل مغیبات کا علم بجزخدا کے کسی کوحاصل نہیں۔ نہ کسی ایک غیب کا علم کسی شخص کو بالذات بدون عطائے الٰہی کے ہوسکتا ہے اور نہ مفاتیح غیب(غیب کی کنجیاں جس کا ذکر سورۂ انعام میں گزرچکا) اللہ نے کسی مخلوق کو دی ہیں۔ ہاں بعض بندوں کو بعض غیوب پرباختیار خود مطلع کردیتا ہے، جس کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو حق تعالیٰ نے غیب پرمطلع فرمادیا یا غیب کی خبردے دی۔‘‘
آگے انھوں نے یہ بات واضح کردی ہے کہ علم غیب سے مراد کیا ہے۔ لکھتے ہیں
’’اور واضح رہے کہ علم غیب سے ہماری مراد محض، ظنون وتخمینات نہیں اور نہ وہ علم جو قرائن ودلائل سے حاصل کیا جائے، بلکہ جس کے لیے کوئی دلیل وقرینہ موجود نہ ہو وہ مراد ہے۔‘‘
سورۂ لقمان کی آخری آیت کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے اس کے ایک فقرے وَیَعْلَمُ مَافِی الْاَرْحَامِ کا حوالہ بھی دیا ہے۔
پہلی بات وہ مشرکین جو قیامت کے منکر تھے بطوراستہزانبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کا وقت پوچھا کرتے تھے، ان کے اس سوال کا ذکر کیے بغیر انھیں کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔آیت کا فقرہ اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ (بے شک اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم ) ان کے سوال کا اصل جواب ہے اور باقی چیزیں اس کی دلیلیں ہیں۔
دوسری بات یہ آیت اللہ تعالیٰ کے علم غیب کی فہرست پیش کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے،اس لیے کہ غیوب کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
تیسری بات یہ معلوم ہے کہ قیامت کا وقت اللہ تعالیٰ نے کسی کونہیں بتایا۔ البتہ اس کی علامتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں۔ خود اسی آیت میں قیامت کے علم کے بارے میں جو صیغہ استعمال کیاگیا ہے وہ باقی چار چیزوں کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے۔
چوتھی بات ان پانچ چیزوں کے علم کی کنجیاں بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں، ان میں سے بھی کسی چیزپر کوئی انسان بذات خود قطعیت اور یقین کے ساتھ مطلع نہیں ہوسکتا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی غیب پرخود مطلع فرمادے۔ اس آیت کے تحت مفسرصاوی نے بھی یہی بات لکھی ہے
واما باعلام اللہ للعبدفلامانع منہ کالانبیاء وبعض الاولیاء فلا مانع من کون اللہ یطلع بعض عبادہ الصالحین علی بعض ھذہ المغیبات فیکون معجزۃ للنبی وکرامۃ للولی۔ (مختصرمن الصاوی برحاشیہ جلالین )
’’لیکن اللہ بندے کو علم عطاکردے تو اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ جیسے کہ انبیاء اور بعض اولیاء لہٰذا اللہ کے مطلع کردینے میں اپنے بعض نیک بندوں کو ان غیوب میں سے بعض پر،اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔اگرنبی کو اسی طرح کا غیب دیا جائے تو معجزہ ہوگا اور ولی کو دیاجائے تو کرامت ہوگی۔‘‘
اصل مسئلہ کی اس توضیح کے بعد متعین طورپر آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی بزرگ کی یہ پیشین گوئی کہ فلاں کے گھر میں لڑکا ہوگا یا لڑکی، نہ اسلامی عقیدے کے خلاف ہے اور نہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان کے پاس غیب کی کنجی کہاں سے آگئی۔ پیشین گوئی کے بارے میں اوپر جو کچھ عرض کیاگیا ہے، کسی بزرگ کی اس طرح پیشین گوئی کشف والہام کی قسم میں داخل ہے۔ پیشین گوئی صحیح ثابت ہوتو جس کشف والہام کی بناپرپیشین گوئی کی تھی وہ صحیح تھا اور غلط ثابت ہوتو سمجھاجائے گا کہ وہم کو کشف اور وسوسہ کو الہام سمجھ لیاگیاتھا۔
(جنوری ۱۹۸۵ء ج ۲ ش ۱)