(۱) ماہنامہ’برہان‘ دہلی نومبر ۱۹۶۴ء کے نظرات میں لکھا گیاہے
’’مس فاطمہ جناح کی حمایت اگر خالص سیاسی یا ملکی مصالح کے پیش نظر کی جاتی اور اسلام کا پائوں درمیان میں نہ آتا تو غنیمت تھا، دین سے تلاعب اور شریعت محمدی سے بازی گری کے جرم کا ارتکاب تونہ ہوتا، لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ صدرایوب کی مخالفت میں جو علماء پیش پیش ہیں وہ اعلان پر اعلان کررہے ہیں کہ اسلام میں ایک عورت کا سربراہ مملکت ہونا ممنوع نہیں ہے اورایک بڑے مولانا نے تو چیلنج کیا ہے کہ اگر ممنوع ہے تو کوئی شخص بتائے کہ قرآن میں یا حدیث میں اس کا ذکر کہاں ہے؟
ایک بڑے مولانا سے اشارہ غالباً مولانا مودودی کی طرف ہے۔ اس لیے کہ انھیں کے بارے میں سنا گیا ہے کہ انھوں نے اس مسئلہ میں کوئی چیلنج کیاہے۔ آپ ہمیں بتائیے کہ کیا واقعی انھوں نے عورت کی سربراہی کے ممنوع ہونے کا ثبوت مانگا ہے اور چیلنج کیا ہے کہ یہ ممانعت کوئی شخص قرآن اور حدیث میں دکھائے؟
(۲) پاکستانی جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے
’’شریعت میں جو چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ان میں سے بعض کی حرمت ابدی اور قطعی ہے جو کسی حالت میں تبدیل نہیں ہوسکتی اور بعض کی حرمت ایسی ہے جو شدید ضرورت کے موقع پرضرورت کی حدتک جواز میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ عورت کو امیربنانے کی ممانعت اسی قسم میں ہے۔‘‘
کیا واقعی شریعت نے حرمتوں کے درمیان یہ تقسیم کی ہے یا پاکستانی جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے یہ قاعدہ خود گھڑلیا ہے؟ اضطرار اور اکراہ کی صورت میں تو بعض حرام چیزوں کے استعمال کی رخصت مشہور ہے لیکن یہ’شدید ضرورت‘ کی نئی اصطلاح کہاں سے نکل آئی ؟
امید ہے کہ آپ زندگی کے رسائل ومسائل میں ان دوباتوں پرروشنی ڈالیں گے تاکہ ہماری الجھن دور ہو۔
جواب
اگر ’ایک بڑے مولانا‘ سے مولانا مودودی مراد ہیں اور غالب قرینہ یہ ہے کہ وہی مراد ہیں تو میں ان کے الفاظ یہاں نقل کرتاہوں جو انھوں نے اپنی تقریرمیں کہے تھے۔ دعوت دہلی نے اپنے ۱۶؍اکتوبر کے سہ روزہ ایڈیشن میں نوائے وقت لاہور کے حوالے سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں
’’لاہور۱۳؍اکتوبر۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے چیلنج کیا ہے کہ کوئی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ازروئے شریعت عورت کا سربراہ مملکت ہونا حرام ہے اور اس سلسلے میں استثنا کی قطعی گنجائش نہیں۔ آپ نے کہا کہ حکومت لوگوں کو مذہب کے نام پر گم راہ کررہی ہے۔ آپ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ دین میں اختراع کرنا چاہتی ہے۔‘‘
اس چیلنج کا پس منظر یہ ہے کہ مولانا مودودی کے جیل سے باہر آنے سے پہلے ۵؍اکتوبر کو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے صدارتی انتخاب میں مس فاطمہ جناح کی حمایت کا فیصلہ کیا او ر اپنے فیصلے میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی کہ موجودہ غیرمعمولی حالات میں ایک عورت کا سربراہ مملکت ہونا شرعاً ناجائز نہیں ہے۔ اس نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جماعت کو ایک شرعی قباحت کی بناپر اس انتخاب کو قبول کرنے میں تامل رہالیکن حالات غیرمعمولی ہیں اور غیر معمولی حالات میں جو فیصلہ ہم نے کیا ہے وہ آئندہ کے لیے نظیر نہیں بن سکے گا، اصل شرعی قاعدہ اپنی جگہ پرقائم رہے گا۔ اس کے بعد اس نے وہ عبارت لکھی ہے جو آپ کے سوال نمبر ۲ میں درج ہے۔ اس فیصلے کا شائع ہونا تھا کہ حکومت اوراس کے حواریین جماعت کے خلاف پروپیگنڈے میں سرگرم ہوگئے۔ مولانا مودودی جب جیل سے باہر آئے تو انھوں نے مجلس شوریٰ کے فیصلے کی توثیق کردی۔ اس توثیق نے جلتی پرتیل کا کام کیا اور پروپیگنڈے کی مشین پوری قوت سے چالو ہوگئی۔ اس کے بعد ۱۳؍اکتوبر کو انھوں نے وہ چیلنج کیا جس کا ذکر اوپر گزرا۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ مولانا مودودی نے چیلنج کس چیز پرکیا ہے اور کن الفاظ میں کیا ہے اور مدیر برہان ان کی طرف کیا منسوب کررہے ہیں ؟ انھوں نے مودودی صاحب کے پہلے جملے کو لے لیا اور دوسرے جملے کو یعنی ’’اور اس سلسلے میں استثنا کی قطعی گنجائش نہیں ‘‘ کو چھوڑ دیا جو پہلے جملے کی توضیح وتقیید کررہاتھا۔ مولانا مودودی چیلنج اس بات پر کررہے ہیں کہ کوئی شخص ازروئے شریعت عورت کے سربراہ مملکت ہونے کو ایسا حرام ثابت نہیں کرسکتا جس میں استثنا کی قطعی گنجائش نہ ہو اور فاضل مدیر برہان ان کی طرف یہ منسوب کررہے ہیں کہ وہ عورت کے سربراہ مملکت ہونے کو ایسا حرام ثابت نہیں کرسکتا جس میں استثنا کی قطعی گنجائش نہ ہو اور فاضل مدیر برہان ان کی طرف یہ منسوب کررہے ہیں کہ وہ عورت کےسربراہ مملکت ہونے کی ممانعت ہی کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے مخالفین سے مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ ممانعت قرآن اور حدیث میں دکھائو کہ کہاں ہے ؟ اور لطیفہ یہ ہے کہ مجلس شوریٰ کے فیصلے سےقطع نظر جس کی توثیق مودودی صاحب نے کی ہے، خود انھوں نے بارہ چودہ سال کے عرصے میں اپنی متعدد تحریروں میں قرآن وحدیث کے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت سربراہ مملکت اسلامیہ نہیں ہوسکتی۔ مدیر برہان نے جو بات ان کی طرف منسوب کی ہےاس کامطلب تو یہ ہوا کہ انھوں نے صرف جماعت کی مجلس شوریٰ ہی کو چیلنج نہیں کیا جس کےفیصلے کی وہ توثیق کرچکے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی چیلنج کیا۔ ناطقہ سربہ گریبان کہ اسے کیا کہیے۔
مدیربرہان اس سے پہلے بھی ۱۹۶۲ء میں منیر رپورٹ پرایمان لاکر مولانا مودودی کی طرف ایک انتہائی غلط بات منسوب کرچکے ہیں اوراس مسئلےمیں بھی شاید کسی دوسرے منیر کی رپورٹ پرایمان لاکر یا بطورخود دوسری غلط بات منسوب کی ہے اور لطیفہ برلطیفہ یہ ہے کہ فاضل مدیر نے ’’ان حضرت سے کوئی پوچھے‘‘ کے تحقیر آمیز خطاب سے قرآن وحدیث کے دلائل بھی ارشاد فرمائے ہیں اور یہ دلائل اس شخص کو بتائے گئے ہیں جو دس بارہ سال پہلے بدلائل ان سے بہتر طورپر یہ ثابت کرچکا ہے کہ عورت اور مرد کے حدود کارالگ ہیں اور عورت کا سربراہ مملکت ہونا جائزنہیں ہے او ریہ چیز اتنی مشہور ہے کہ مدیر برہان جیسے وسیع المطالعہ شخص کا اس سے ناواقف ہونا بہت مستبعد ہے جو ماشاء اللہ کناڈا کی مک گل یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامیات میں ایک سال قیام کرکے بہت سے لکچر زدے آئے ہیں۔
مولانا مودودی کے علاوہ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب مفتی شفیع صاحب اور مفتی مہدی حسن صاحب کے فتوے بھی شائع ہوچکے ہیں کہ خاص حالات میں عورت سربراہ مملکت ہوسکتی ہے۔ لیکن مدیر برہان کے نظرات میں اس کی طرف کوئی اشارہ بھی موجود نہیں ہے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ حضرات خاص حالات میں جواز کے قائل ہیں اور مولانا مودودی بقول مدیر برہان مطلق جواز کے قائل ہیں۔ ’خاص حالات ‘ میں جواز کے فتوے پراعتراض نہ کرنے کی وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ کہیں مدیر برہان بھی خاص حالات میں اس کے جواز کی تائید تو نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہے تب تو مودودی صاحب اور مدیر برہان میں اختلاف ہی نہ رہا، کیونکہ فی الواقع مولانا مودودی بھی غیر معمولی حالات ہی میں جواز کے قائل ہیں۔
مولانا مودودی پر’دین سے تلاعب‘ اور ’شریعت محمدی سے بازی گری‘ کاالزام لگانا بہت آسان ہے۔ یہ الزام توگلی گلی چاٹ بیچنے والا ان پڑھ اور بے عمل خوانچہ فروش بھی لگاسکتا ہے۔فاضل مدیر برہان توماشاء اللہ صدرشعبۂ دینیات ہیں۔ اس میدان کے مرد صرف وہی نہیں ہیں بلکہ اب تک اس مسئلے پر دوسروں کے بھی بڑے لمبے لمبے مضمون نکل چکے ہیں۔ لیکن کسی ایک میں بھی اصل مسئلے پر بحث نہیں کی گئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا عورت کی سربراہی کی حرمت اس طرح کی ہے کہ اس میں استثنا کی قطعی گنجائش نہیں ہے؟ جہاں تک مجھے علم ہے آج ۲۵؍نومبر ۱۹۶۴ء تک کسی مرد میدان نے اس کو دلیل سے ثابت نہیں کیا۔
لکھنؤ کے ایک محترم عالم دین نے مولانا تھانویؒ کے فتوے کو برحق قراردے کر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ پاکستان کے حالات پراس کا انطباق صحیح نہیں ہے۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس سے مولانا مودودی کے دعوے کی تائید ہورہی ہے یا تردید؟ مولانا تھانوی کے فتوے سے استثنا توثابت ہوہی گیا۔ اس کا انطباق صحیح ہے یا نہیں یہ الگ مسئلہ ہے اوراس میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ چناں چہ مفتی شفیع صاحب کے نزدیک پاکستان کے موجودہ حالات پراس کا انطباق صحیح ہے۔
بہت سے لوگ مولانا مودودی کی سابق تحریریں پیش کرکے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں لیکن اب تک کسی نےمولانا کی کوئی ایسی تحریر پیش نہیں کی جس میں انھوں نے لکھا ہو کہ اس مسئلے میں استثنا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ طفیل محمد صاحب قیم جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے ایک بیان میں تبدیلی موقف کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے
’’اسلامی ریاست کی سربراہی کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ مرد ہونا بھی ایک شرط ہے۔ اس قاعدے کا مولانا مودودی یا جماعت اسلامی کے کسی دوسرے شخص نے انکار کب کیاتھا کہ اس کے لیے اب مولانا مودودی صاحب کی تصنیفات سے لمبے چوڑے حوالے دینے کی ضرورت ہو.....اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا عورت کو سربراہ مملکت بنانا فی الواقع ایسا حرام ہے کہ اس میں کسی شدید سے شدید ضرورت کی بناپر بھی شریعت میں استثنا کی گنجائش نہ ہو۔ ایسی ابدی اور قطعی حرمت کےلیے کوئی دلیل کسی کے پاس ہو تو وہ پیش کرے۔‘‘ (شہاب لاہور،۸؍نومبر۱۹۶۴ء)
عقائد وکلام کی کتابیں پڑھ جائیے۔ ہر کتاب میں آپ کو خلافت وامامت کی شرطیں مطلق انداز میں ملیں گی۔ان میں استثنا کی صراحت نہیں ملے گی۔ لیکن فقہا نے دوسرے شرعی دلائل کے پیش نظر بعض شرطوں میں استثنا کیا ہے اور بعض شرطیں توایسی ہیں جن کو آج علماء کی کثیر تعداد شرط ماننے پربھی تیارنہیں ہے۔ کتب عقائد کے مصنفین، امام نووی اورشاہ ولی اللہ وغیرہم نے خلیفہ کے قریشی ہونے کی شرط پراہل السنۃ والجماعۃ کا اجماع نقل کیا ہے لیکن آج مولانا مودودی پرتالیاں پیٹنے والے حضرات بھی اس اجماعی شرط کا انکار کرتےہیں۔
امام المسلمین کےلیےجو شرطیں ہیں ان میں مرد ہونا بھی ایک شرط ہے اور بالغ ہونا بھی ایک شرط ہے۔ یعنی کوئی بچہ صدر مملکت نہیں ہوسکتا او ریہ شرط مرد ہونے کی شرط سے زیادہ اجماعی اور متفقہ ہے، کیوں کہ مرد ہونے کی شرط میں ابن جریر طبری کا اختلاف ہے لیکن بالغ ہونے کی شرط میں کسی کاا ختلاف نہیں ہے۔ ایک ایسی اجماعی شرط میں بھی فقہاء نے استثنا کیا ہے۔
درمختار میں ہے
وتصح سلطنۃ متغلب للضرورۃ وکذا اصبی۔ (برحاشیہ شامی جلد۱بحث امامۃ کبریٰ)
’’ضرورت کی بناپر بزورقبضہ کرلینے والے کی سلطنت صحیح ہوتی ہے۔ اسی طرح ضرورتاً بچے کی سلطنت بھی صحیح ہوتی ہے۔‘‘
علامہ شامی (للضرورۃ) کے تحت لکھتے ہیں
ھی دفع الفتنۃ ولقولہ صلی اللہ علیہ وسلم اسمعواواطیعوا ولوامر علیکم عبدحبشی اجدع۔
’’یہ ’ضرورت‘ فتنے کو دفع کرنا ہے اور اس کی دلیل نبی ﷺ کا یہ قول بھی ہے کہ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پرکوئی نکٹا حبشی غلام حاکم بنادیاگیا ہو۔‘‘
چوں کہ غیرمکلف بچہ امور سلطنت انجام نہیں دے سکتا اس لیے ایسی صورت میں فقہا نے کہا ہے کہ کسی اہل شخص کو امور مملکت کی انجام دہی کے لیے مقرر کیا جائے۔ رسمی طورپر تووہ بچہ صاحب اقتدار ہو اور حقیقتاًاقتداراس شخص کے ہاتھ میں ہو جو اس بچے کا تابع بنایا گیا ہے۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جب ایک غیرمکلف بچہ ضرورت کے وقت، صدر مملکت بنایا جاسکتا ہے تو پھر ایک مکلف اور ذمہ دار عورت کیوں نہیں بنائی جاسکتی۔ اس قیاس کو رد کرنے کی وجہ کیا ہے؟
اس تفصیل سے دوباتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر حالت میں عورت کے صدر مملکت ہونے کی حرمت اب تک ثابت نہیں ہوسکی ہے اور دوسری یہ کہ مولانا مودودی پر دین سے تلاعب کا الزام غلط ہے۔
(۲) آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ائمۂ احناف نے اصول شرع یا اصول فقہ پرجو کتابیں لکھی ہیں ان میں یہ تقسیم موجود ہے۔ اس مسئلے پر مفصل اصولی بحث کا یہ موقع نہیں۔ ذیل میں محض اختصار سے چند باتیں عرض کرتاہوں۔
ائمۂ احناف کی کتابوں میں موجود ہے کہ بعض ماموربہ (جس کا شریعت نے حکم دیا ہے) ایسے ہیں کہ کسی حال میں بھی سقوط کو قبول نہیں کرتے یعنی کسی حال میں بھی مسلمان کے لیے اس کی گنجائش نہیں کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرسکے، ہر حال میں وہ اس حکم کامکلف باقی رہتاہے یہاں تک کہ اکراہ کی حالت میں بھی وہ حکم اس سے ساقط نہیں ہوتاــــمثلاً ایمان یعنی تصدیق قلبی۔ اگر کسی مسلمان کی گردن پرتلوار بھی رکھی ہوئی ہو تو اسے رخصت نہیں کہ اپنی تصدیق قلبی کو ختم کرکے کفر وشرک کو قبول کرلے۔ یہ تصدیق قلبی شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتا۔ اور بعض مامور بہ ایسے ہیں جو بعض حالات میں سقوط کو قبول کرتے ہیں یعنی مسلمان سے اس حالت میں وہ حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کی دو مثالیں ہیں (۱) اقرار لسانی۔ایمان کے دوجزہیں قلبی تصدیق اور زبانی اقرار۔ اس کا پہلا جزکسی حال میں ساقط نہیں ہوتا جیسا کہ اوپر کہاگیا لیکن دوسرا جز یعنی زبانی اقرار حالت اکراہ میں ساقط ہوسکتا ہے یعنی اس حالت میں کلمۂ شرک وکفر منہ سے نکالنے کی رخصت مل جاتی ہے، شرط یہ ہے کہ دل ایمان پرمطمئن ہو۔ (۲) نماز یہ عبادت اپنے ذاتی حسن کے باوجود ایک ایسا حکم ہے جو کسی عارض ومانع کی وجہ سے ساقط ہوجاتاہے۔ مثلاً حالت حیض ونفاس میں صرف یہی نہیں کہ عورت سے نماز کا حکم ساقط ہوجاتا ہے بلکہ اس حالت میں اس کے لیے نماز ناجائز ہوجاتی ہے۔
قلبی تصدیق بھی فرض ہے اور نماز بھی فرض ہے لیکن ایک کی فرضیت کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور دوسرے فرض کی فرضیت بعض حالات میں حرمت سے تبدیل ہوجاتی ہےـــــاسی طرح بعض منہی عنہ (جس سے شریعت نے منع کیا ہے ) ایسے ہیں کہ ہر حال میں ممنوع اور حرام رہتے ہیں۔ ان کی حرمت کبھی نسخ کو قبول نہیں کرتی۔ مثلاً کفر یعنی قلبی انکار، دل کا کفر ایک ایسا حرام ہے جس کی حرمت ابدی ہے او رکبھی تبدیل نہیں ہوتی یعنی کسی حال میں بھی اس کی رخصت نہیں ہے کہ مسلمان دل سے کفر کو قبول کرلے۔ اس کی دوسری مثال زنا ہے۔ یہ حرام بھی ایسا ہے کہ کسی حالت میں اس کی حرمت تبدیل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بے حیائی کسی ملت اور کسی شریعت میں کبھی مباح نہیں ہوئی۔ بعض حرام ایسے ہیں جو بعض حالا ت میں مباح ہوجاتے ہیں، مثلاً سور کا گوشت اورشراب کہ ان دونوں کا استعمال حالت اضطرار میں مباح ہی نہیں بلکہ ضروری ہوجاتاہے۔ اگر کوئی شخص بھوک سے مررہاہواور حرام گوشت کے سواکوئی غذا موجود نہ ہو تو اسے حرام گوشت کھالینا چاہیے۔ اگر نہ کھائے اور مرجائے تو گنہ گار ہوگا۔ اسی طرح اگر پیاس سے کسی کی جان نکل رہی ہواور شراب کے سواکچھ موجود نہ ہو تو اس کو شراب پی لینی چاہیے۔ اگر نہ پیے اور مرجائے تو گنہ گار ہوگا۔
اتنی توضیح بھی یہ جاننے کےلیے کافی ہے کہ پاکستانی جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے جو بات کہی ہے وہ اس کی من گھڑت نہیں ہے۔ائمۂ احناف نے یہ جو کچھ کہا ہے،بلادلیل نہیں کہاہے بلکہ قرآن وحدیث کے دلائل کو سامنے رکھ کر کہا ہے۔ ان دلائل کو یہاں پیش کرنا موجب طوالت ہے اور اسی اندیشے کی بنا پر میں نے اصول فقہ کی عربی عبارتیں نقل نہیں کی ہیں۔
کوئی شخص اس تقسیم کودلائل سے رد کرسکتا ہے لیکن اگریہ کہے کہ فقہا نے یہ تقسیم شرعی دلیل کے بغیر ایجادکرلی ہے یاانھوں نے ایک ایسا اصول وضع کردیاہے جس سے پوری شریعت ختم ہوسکتی ہے تواس کی بات ماخذ شرع سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے لائق التفات نہ ہوگی۔ کوئی صاحب علم اس کی جرأت غصے کی مدہوشی میں توکر سکتا ہے، ہوش وحواس کی سلامتی کے ساتھ یہ بات نہیں کہہ سکتا۔
اضطرارمجبوری کو کہتے ہیں اور اکراہ زبردستی کو۔ اکراہ میں کسی دوسرے شخص یا اشخاص کی طرف سے دبائو ہوتاہے اوراضطرار میں کسی دوسرے شخص کی طرف سے زبردستی ضروری نہیں ہے۔’ضرورۃ‘ کالفظ فقہی اصطلاح میں ایسی شدید احتیاج کے لیے استعمال ہوتاہے کہ اس کو نظر انداز کرنا شخصی یا جماعتی طورپر سخت نقصان کا سبب بن جائے اس لیے اضطراراور ’ضرورت ‘ میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا۔ ویسے لغوی اعتبارسے بھی دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ اضطرار کے معنی بھی احتیاج الی الشیٔ کے ہیں اورضرورت کے معنی بھی حاجت کے ہیں۔ لسان العرب میں ایک لغوی کے حوالے سے لکھا گیاہے
الضرورۃ اسم لمصدرالاضطرار تقول حملتنی الضرورۃ علی کذا وکذا۔
’’ضرورۃ مصدراضطرار کااسم ہے۔تم کہتے ہو کہ مجھے ضرورت نے فلاں اورفلاں کام پر مجبورکیا۔‘‘
ابھی آپ نے اوپر پڑھا ہے کہ زبردستی سلطنت پرقبضہ کرلینے کی صحت اور بچے کے سربراہ مملکت بنائے جانے کی صحت ثابت کرنے کےلیے صاحب درمختارنے ’ضرورۃ‘ ہی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور علامہ شامی نے ضرورت کی تشریح دفع فتنہ سے کی ہے۔ الضرورات تبیح المحذورات کا فقہی قاعدہ توبہت مشہور ہے۔ یہی فقہی ’ضرورت‘ ہے جس کو وہاں کی مجلس شوریٰ نے ’شدید ضرورت‘ کہا ہے اوریہ احتیاط اس لیے کی گئی ہوگی کہ اردو میں ضرورت کا لفظ ہرچھوٹی بڑی حاجت کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کےلیے اس پر ’شدید‘ کااضافہ کیاگیاہے۔ یہ اصطلاح بھی انھوں نے ایجاد نہیں کی ہے بلکہ فقہا نے ’ضرورۃ ‘ کی اصطلاح اپنی کتابوں میں بکثرت استعمال کی ہے۔
یہ مسئلہ کی مختصر توضیح تھی۔ باقی رہی یہ بات کہ جماعت اسلامی پاکستان نے مس فاطمہ جناح کی حمایت کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اسے کرنا چاہیے تھا یا نہیں ؟ یا یہ بات کہ وہاں حالات اس استثنا کی گنجائش پیدا کرتے ہیں یا نہیں تو اس کےبارے میں وہیں کے لوگ بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ راقم الحروف اس کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ (جنوری ۱۹۶۵ءج۳۴ش۱)