سورۂ فتح کی آیت نمبر۱۰ کا ایک ٹکڑا یہ ہے
وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰہَدَ عَلَيْہُ اللہَ فَسَيُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۱۰ۧ
’’اورجواس عہد کو پوراکرےگا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجرعطافرمائے گا۔‘‘ غالباً پورے قرآن میں اسی مقام پرعلیہ کی ہا کو ضمہ ہے، باقی ہر جگہ اس کی ہا مکسور ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب
عَلَیْہُ کے ضمہ کی توجیہ سے پہلے چند باتوں کی طرف اشارہ ضروری ہے۔
اس سوال کا تعلق قرآن کریم کی قرأت اورنحوی قواعدسے ہے،اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے ذہنی الجھن کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد مستند تفسیروں میں اس پر سرے سے کوئی اشارہ تک موجود نہیں ہے۔دوسری یہ بات آپ کے علم میں آنی چاہیے کہ جمہورقراء کی قرأت میں یہاں بھی عَلَیْہ کی ہا کو حسب قاعدہ کسرہ ہی ہے۔ ضمہ صرف حفص رحمۃ اللہ علیہ کی قرأت میں ہے اور قرآن پر اعراب لگانے میں اسی کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ اس جگہ بھی عَلَیْہ کو زیر کے ساتھ پڑھنا صحیح اور درست ہے۔ ہا کو ضمہ کے ساتھ پڑھنا ضروری اور واجب نہیں ہے۔ ہاں اولیٰ اور انسب ضرور ہے۔
اب صرف اس بات کی توجیہ وتوضیح ہونی چاہیے کہ اعراب لگانے میں جمہور قراء کی قرأت کو ترک کرکے یہاں قرأتِ حفص کو ترجیح کیوں دی گئی ہے؟علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ میں نے وقت کے بڑے بڑے علماء سے علیہ کے ضمہ کی وجہ پوچھی، لیکن کسی نے تشفی بخش جواب نہیں دیا۔ انھوں نے بطور خود اس کی توجیہ میں چند اشارات کیے ہیں۔ راقم الحروف جو کچھ لکھے گا وہ متعدد تفسیروں کے اشارات کی توضیح ہوگی۔
قرأت اور نحوی قاعدوں کی بحث بڑی خشک علمی وفنی بحث ہوتی ہے، لیکن آپ کے سوال کے پیش نظر اس کے بغیر چارہ نہیں۔ میں اختصار کے ساتھ وضاحت کی کوشش کروں گا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو ذہن نشین رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ پورے قرآن میں علیہ کے بعد اسم جلالتہ اللہ غالباً صرف اسی جگہ ہے اور یہی خصوصیت ہے جس کی بناپر یہاں علیہ کی ہا پرضمہ لگایا گیا ہے۔ اب اصل بحث ملاحظہ ہو۔
عربی زبان میں واحد مذکر غائب کی ضمیر کے لیے اصلاً ’ھُوَ‘ کا لفظ وضع کیا گیا ہے، یہ ضمیر منفصل ہے، چوں کہ ہرجگہ ضمیر منفصل کا استعمال باعث طوالت ہوتا اس لیے اس کو لفظ کے ساتھ جوڑکر استعمال کرنے کے قواعد بھی بنائے گئے۔ آپ کسی حرف یا کسی اسم کے ساتھ ایک ضمیر متصل دیکھتے ہیں، جیسے لَہٗ اور فَعَلَہٗ۔ یہ درحقیقت وہی ھُوَ کی ضمیر واحد مذکر غائب ہے، جس کے واؤ کو حذف کرکے کسی حرف یا اسم کے ساتھ جوڑدیتے ہیں۔ واؤ کو حذف کرنے کے بعد جو حرف باقی رہتا ہے، اس پرضمہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اصل کے لحاظ سے اس ضمیر پر پیش ہی ہوتا ہے، زیر نہیں ہوتا۔اگر اس اصل کو باقی رکھاجائے تو علیہ کی ہا پرضمہ ہی ہونا چاہیے۔ لیکن ایک دوسرے نحوی قاعدے کی بناپر اس اصل میں تبدیلی پیدا کردی گئی ہے۔ وہ نحوی قاعدہ یہ ہے کہ جب ہا سے پہلے کا حرف مکسور ہویا اس سے پہلے حرف یا ہوتو ہا کو بھی کسرہ دیا جائے گا، جیسے بِہٖ اور اِلَیْہٖ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی حرف مکسور کے بعد یا حرف یا کے بعد ضمہ ثقیل ہوتا ہے۔زبان کے اس ثقل اوربوجھ کو ہٹانے اورلفظ کو رواں کرنے کے لیے اس کو زیر دیتے ہیں۔ آیت زیرِ بحث میں اسی قاعدے کی وجہ سے جمہور قراءعلیہ کی ہا کو مکسور پڑھتے ہیں۔ لیکن امام القراء حفصؒ نے یہاں اس تبدیلی کو ترک کرکے ہا کی اصل حرکت پیش کو باقی رکھا ہے۔ اس کی چند وجہیں ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہا کو اللہ کے لام میں ملاکر پڑھنے سے ثقل باقی نہیں رہتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہا کو پیش کے ساتھ پڑھنے میں اسم جلالتہ اللہ کی تفخیم کا فائدہ ہوتا ہے اوراسم ذات کی قرأت میں تفخیم اس کی ترقیق سے بہتر ہے۔ اسم ذات اللہ کی قرأت میں تفخیم اور ترقیق کا قاعدہ یہ ہے کہ جب اس اسم سے پہلے زبر یا پیش ہوتواسے تفخیم کے ساتھ پڑھاجائے اور جب زیر ہوتو ترقیق کے ساتھ پڑھا جائے۔ (تفخیم اور ترقیق کے ساتھ پڑھنے میں کیا فرق ہوتا ہے اس کو کسی قاری سے سن کر سمجھ لیاجائے) عَلَیْہُ اللہَ کے ہا پر ضمہ کی یہی دوسری وجہ سب سے بڑی وجہ ہے اور اسی کی طرف امام بغوی اور دوسرے مفسرین نے اشارہ کیا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں عہد کا ذکر ہے اور ہا کو اپنی اصل پرباقی رکھنے میں عہد کو علی حالہ باقی رکھنے کا اشارہ نکلتا ہے۔ یعنی جس طرح ہا کے پیش میں تبدیلی پیدا نہ کی گئی اس طرح اللہ سے باندھے ہوئے عہد میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کرنی چاہیے۔ اس نکتے کی طرف علامہ آلوسی نے اشارہ کیا ہے۔
یہ وجوہ ہیں جن کی بناپر اس آیت میں عَلَیْہ کی ہا کو پیش کے ساتھ پڑھاجاتا ہے اور انھیں وجوہ سے اعراب لگانے میں ضمہ کو ترجیح دی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔
(نومبر ۱۹۶۲ءج۲۹،ش۵)