جواب
آپ نے لکھا ہے کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہونے ہی والا تھا کہ یہ دو چیزیں میرے سامنے آگئیں اور انھیں دیکھ کر میں رُک گیا۔ اس رُک جانے کو آپ شاید کوئی تقویٰ کا فعل سمجھتے ہیں ۔ لیکن آپ ذرا غور کریں گے تو آپ کو خودمعلوم ہوجائے گا کہ فی الواقع آپ نے تقویٰ کا مفہوم غلط سمجھا ہے اور اسی وجہ سے ایک غیر متقیانہ فعل کو متقیانہ فعل سمجھ کر آپ کر گزرے ہیں ۔ آپ کواعتراف ہے کہ یہ جماعت اصل دین کی اقامت کے لیے بنی ہے جو ہر مومن کے عین ایمان کا مقتضا ہے۔آپ خود فرماتے ہیں کہ ’’اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے صرف جماعت اسلامی ہی کی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔‘‘اور یہ کہ’’اس نظریے کو قبول کرنا اور اسے پھیلانا ہر مسلما ن کا فرض ہے۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ اس تقاضاے ایمان اور اس فرض کی طرف بڑھتے بڑھتے آپ کا صرف اس لیے رک جانا کہ ایک علمی مسئلے کی تعبیر اور ایک جزوی فقہی مسئلے کی تحقیق میں آپ جماعت کے اس خادم کی راے کو غلط پاتے ہیں ،آخر کس قسم کا تقویٰ ہے؟ فقہی وعلمی اختلاف تو خیر بہت چھوٹی چیز ہے کہ اس کے لیے فریقین کے پاس شریعت سے دلائل موجود ہوتے ہیں ، میں ثابت شدہ سنتوں کے متعلق آپ سے پوچھتا ہوں کہ ان کی خلاف ورزی دیکھ کر بھی اگر آپ اس فرض سے اجتناب کرجائیں تو کیا یہ پرہیز گاری ہے؟مثلاً آپ دیکھیں کہ امام نے مسجد میں داخل ہوتے وقت بایاں قدم پہلے رکھا اور یہ دیکھتے ہی آپ جماعت چھوڑ کر مسجد سے پلٹ آئیں ، یا آپ دیکھیں کہ اسلامی فوج کے جنرل نے اُلٹے ہاتھ سے پانی پیا یا چھینک آنے پر الحمد ﷲ نہ کہا اور اس خلافِ سنت حرکت سے متنفر ہوکر آپ میدان جہاد سے پلٹ آئیں تو کیا واقعی اس کو آپ پرہیز گاری سمجھیں گے؟ آپ کو موازنہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا چھوڑا تھا اور آپ نے کیا چھوڑ دیا۔وہ بڑا غلط کار تھا کہ اس نے ایک پیسا ضائع کیا۔ مگر آپ نے تو اس کے جواب میں خزانہ برباد کردیا۔پھر بتایئے کہ زیادہ بڑا غلط کار کون ہوا؟تاہم یہ آپ کا قصور نہیں ہے بلکہ آج کل دین داری کا عام ڈھنگ یہی ہے کہ اشرفیاں لُٹیں اور کوئلوں پر مہر۔({ FR 1129 }) (ترجمان القرآن ، فروری۱۹۴۶ء)