قیامت کے بارے میں استفہام

تفہیم القرآن میں سورۂ الحاقہ کا مطالعہ کررہاہوں۔ ایک شبہ پیدا ہوا ہے،اس لیے آپ کی طرف رجوع کررہاہوں۔ قرآن میں جہاں کہیں ’وَمَااَدْرَاکَ‘سے کوئی جملہ استفہامیہ آیا ہے وہیں متصل آیت میں اس کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ مگر یہ اسلوب سورۂ الحاقہ میں ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ آیت۴ کو آیت ۳ کا جواب نہیں سمجھا جاسکتا۔مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ نے آیت ۴ سے نیا پیراگراف  شروع کیا ہے۔ ازراہ مہربانی شبہے کا ازالہ فرمائیں۔

جواب

آپ کو شبہ اس لیے پیش آیا کہ دوسرے مقامات پر آپ نے وَمَااَدْرَاکَ کے بعد جو کچھ کہاگیا ہے اس کو جملہ استفہامیہ کا جواب سمجھ لیا ہے، حالاں کہ قیامت کے بارے میں جو استفہام ہے وہ اس بات کو واضح کرنے کے لیےہے کہ جس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا ہے اس کی حقیقت جاننے کے لیے انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ نیز یہ کہ وہ اس قدرزہرہ گداز اورہول ناک ہے کہ دنیا میں اس کی پوری حقیقت کوئی نہیں جان سکتا۔ استفہام کبھی کسی چیز کی ہول ناکی یا اس کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ وَمَااَدْرَاکَ کے بعد قرآن میں جو کچھ کہاگیا ہے وہ قیامت کے کسی منظر یا اس کے کسی پہلو کا ایک ایسا بیان ہے جو اس کی ہول ناکی کا تصور انسان کو دیتا ہے۔
سورۂ الحاقہ میں اسلوب کی تبدیلی صرف یہ ہے کہ قیامت کو جھٹلانے والی قوموں پردنیا میں جو چھوٹی قیامت آئی، پہلے اس کو بطور تمہید بیان کیاگیا ہے۔ اس کے بعد فَإذَا نُفِخَ فِیْ الصُّوْر ِآیت ۱۳ سے اصل قیامت کا بیان شروع ہواہے۔قیامت کیا ہے؟ اس کا جواب تو انسان کو قیامت میں ملے گا۔یہاں تو محض ڈرانے کے لیے اس کا ایک تصوردیاگیاہے۔ (جنوری ۱۹۸۱ء،ج۶۶،ش۱)