حمیدہ رات کے کسی حصہ میں اٹھی اور اپنی بھاوج کے بستر کو اپنا بستر سمجھ کرلیٹ گئی۔ اتفاق سے اسی بستر پر اس کی بھاوج کا شیرخواربچہ بھی تھا۔ اس نے تھوڑی دیر کے بعد حمیدہ کا دودھ پینا شروع کردیا اور حمیدہ نے بھی نیند کے غلبہ میں اس بچہ کو اپنی بچی سمجھ کر دودھ پلایا۔ دریافت طلب یہ ہے کہ حمیدہ کی بچی اور اس بچہ کے درمیان نکاح درست ہے یا نہیں جب کہ اس نے عالم خواب میں دودھ پلایا ہے؟
(نوٹ) کیا اس دودھ پینے والے بچے کے بھائی بہن کا نکاح اس کے دودھ شریک بھائی بہن سے ہوسکتا ہے؟
جواب
مدت رضاعت میں (جو دوسال ہے)کسی عورت کا دودھ پینے کو رضاعت کہتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں ایسی کوئی قید اور شرط نہیں ہے کہ عورت جب اپنے علم اور ارادے سے دودھ پلائے تب رضاعت ہوگی۔ اس لیے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس طرح کی کوئی قید یا شرط لگائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی عورت لاعلمی میں بھی کسی شیرخوار بچہ کو دودھ پلادے گی تو رضاعت ثابت ہوجائے گی او روہ اس بچہ کی رضاعی ماں ہوجائے گی۔ فقہا نے تو یہاں تک صراحت کی ہے کہ کسی عورت کے مرنے کے بعد بھی اگرکوئی بچہ اس کا دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ فتاویٰ قاضی خان کی عبارت یہ ہے
ویثبت الرضاع بلبن المیتۃ سواء حلب اللبن قبل الموت او بعدہ۔
(علی حاشیۃ فتاویٰ ھندیۃ صفحۃ ۴۱۷)
’’مردہ عورت کے دودھ سے بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے خواہ دودھ موت سے پہلے دوہ لیاگیا ہو یا موت کے بعد۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوہاہوادودھ اگرکسی شیر خوار بچہ کو پلادیاجائے تو مردہ عورت سے اس کی رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ کتب فقہ میں اس کی بھی صراحت ہے کہ اگرنیند کی حالت میں کوئی بچہ دودھ پی لے تو اس عورت سےرضاعت ثابت ہوجائے گی۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حمیدہ نے جس بچہ کو نیند کی حالت میں دودھ پلایا ہے وہ اس کا رضاعی بیٹاہوگیااور وہ اس کی رضاعی ماں ہوگئی۔ لہٰذا اس بچہ اور حمیدہ کی بچی کے درمیان نکاح حرام ہوگا کیوں کہ وہ دونوں رضاعی بھائی بہن ہیں۔ آپ نے اپنے نوٹ میں جو بات پوچھی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جس بچہ نے دودھ پیا ہے، رضاعت صرف اسی سے ثابت ہوئی ہے۔ حمیدہ کی کسی لڑکی سے بھی اس کا نکاح درست نہیں ہوگا۔ البتہ اس بچہ کےکسی بھائی کا نکاح حمیدہ کی کسی بھی بچی سے درست ہوگا کیوں کہ حمیدہ اس کے بھائی کی رضاعی ماں نہیں ہے۔ رضاعت کا رشتہ صرف اس بچہ سےقائم ہوا ہے جس نے دودھ پیاہے۔ (جون ۱۹۷۶ء ج۵۶ ش۶)