جواب
اگر قاتل ایک لاوارث آدمی ہو یا اس کا قریب تر حلقۂ اولیا دیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں صحیح یہ ہے کہ اس کی دیت کا بوجھ وسیع تر حلقۂ اولیا پر ڈالا جائے،حتیٰ کہ بالآخر اس کا بوجھ ریاست کے خزانے پر پڑنا چاہیے۔کیوں کہ ایک شہری کاو سیع تر عاقلہ اس کی ریاست ہی ہے۔اس قول کا ماخذ وہ حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے رئیس مملکت ہونے کی حیثیت سے فرمایا ہے:
مَنْ تَرَكَ كَلًّا فَإِلَى [...] وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِہِ وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ أَعْقِلُ لَہُ وَأَرِثُہُ({ FR 2175 })
’’یعنی اگر کوئی شخص بے سہارا اہل وعیال چھوڑے تو ان کی کفالت میرے ذمے ہے، اور اگر کوئی مال ودولت چھوڑے تو وہ اس کے ورثا کے لیے ہے،اور میں لاوارث کا وارث ہوں ،اس کی طرف سے دیت بھی دوں گا اور اس کاورثہ بھی لوں گا۔‘‘
اس حدیث کی رُو سے ریاست ہر اس شہری کی وارث ہے جو لاوارث مرگیا ہو اور ہر اس شہری کی عاقلہ ہے جس کی دیت ادا کرنے والا کوئی نہ ہو۔خود عقل کی رو سے بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، کیوں کہ ریاست ملک میں امن کی ذمہ دار ہے۔اگر وہ قتل کو روکنے میں ناکام رہی ہے تو مقتول کے وارثوں کے نقصان کی تلافی یا تو اسے قاتل کے وارثوں اور حامیوں سے کرانی چاہیے یا پھر خود کرنی چاہیے۔
دیت ادا نہ کرسکنے کی صورت میں قاتل کو کوئی متبادل سزا دینے کا ثبوت کتاب وسنت میں مجھے کہیں نہیں ملا،نہ اس بار ے میں سلف سے کوئی معتبر قول منقول ہوا ہے۔
(ترجمان القرآن جون جولائی ۱۹۵۲ئ)